Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
اپنی نمازوں کی نگہداشت262 رکھو، خصوصاً ایسی نماز کی جو محاسِن صلوٰة کی جامع ہو۔263 اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو، جیسے فرماں بردار غلام کھڑے ہوتےہیں
سورة الْبَقَرَة 262 قوانین تمدن و معاشرت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس تقریر کو نماز کی تاکید پر ختم فرماتا ہے، کیونکہ نماز ہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر خدا کا خوف، نیکی و پاکیزگی کے جذبات اور احکام الہٰی کی اطاعت کا مادہ پیدا کرتی ہے اور اسے راستی پر قائم رکھتی ہے۔ یہ چیز نہ ہو تو انسان کبھی الہٰی قوانین کی پابندی پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا اور آخر کار اسی نافرمانی کی رو میں بہہ نکلتا ہے جس پر یہودی بہہ نکلے۔ سورة الْبَقَرَة 263 “ اصل میں لفظ ”صَلوٰۃ الْوُسْطیٰ“ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد بعض مفسرین نے صبح کی نماز لی ہے، بعض نے ظہر، بعض نے مغرب اور بعض نے عشاء۔ لیکن ان میں سے کوئی قول بھی نبی ﷺ سے منقول نہیں ہے۔ صرف اہل تاویل کا استنباط ہے۔ سب سے زیادہ اقوال نماز عصر کے حق میں ہیں اور کہا جاتا ہے کہ نبی ﷺ نے اسی نماز کو صلوٰۃ وسطیٰ قرار دیا ہے۔ لیکن جس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جنگ احزاب کے موقع پر نبی ﷺ کو مشرکین کے حملے نے اس درجہ مشغول رکھا کہ سورج ڈوبنے کو آگیا اور آپ ﷺ نماز عصر نہ پڑھ سکے۔ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”خدا ان لوگوں کی قبریں اور ان کے گھر آگ سے بھر دے، انہوں نے ہماری صلوٰۃ وسطیٰ فوت کرا دی۔“ اس سے یہ سمجھا گیا کہ آپ ﷺ نے نماز عصر کو صلوٰۃ وسطیٰ فرمایا ہے، حالانکہ اس کا یہ مطلب ہمارے نزدیک زیادہ قرین صواب ہے کہ اس مشغولیت نے اعلیٰ درجے کی نماز ہم سے فوت کرادی، ناوقت پڑھنی پڑے گی، جلدی جلدی ادا کرنی ہوگی، خشوع و خضوع اور اطمینان و سکون کے ساتھ نہ پڑھ سکیں گے۔ وسطیٰ کے معنی بیچ والی چیز کے بھی ہیں اور ایسی چیز کے بھی جو اعلیٰ اور اشرف ہو۔ صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد بیچ کی نماز بھی ہو سکتی ہے اور ایسی نماز بھی جو صحیح وقت پر پورے خشوع اور توجہ الی اللہ کے ساتھ پڑھی جائے، اور جس میں نماز کی تمام خوبیاں موجود ہوں۔ بعد کا فقرہ کہ ”اللہ کے آگے فرمانبردار بندوں کی طرح کھڑے ہو“ ، خود اس کی تفسیر کر رہا ہے۔
Top