Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِھِمْ : اپنے گھر (جمع) وَھُمْ : اور وہ اُلُوْفٌ : ہزاروں حَذَرَ : ڈر الْمَوْتِ : موت فَقَالَ : سو کہا لَهُمُ : انہیں اللّٰهُ : اللہ مُوْتُوْا : تم مرجاؤ ثُمَّ : پھر اَحْيَاھُمْ : انہیں زندہ کیا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر ادا نہیں کرتے
265تم نے ان لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑکر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جاؤ۔ پھر اس نےا ن کو دوبارہ زندگی بخشی۔266 حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے
سورة الْبَقَرَة 265 یہاں سے ایک دوسرا سلسلہ تقریر شروع ہوتا ہے، جس میں مسلمانوں کو راہ خدا میں جہاد اور مالی قربانیاں کرنے پر ابھارا گیا ہے اور انہیں ان کمزوریوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، جن کی وجہ سے آخر کار بنی اسرائیل زوال و انحطاط سے دوچار ہوئے۔ اس مقام کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ مسلمان اس وقت مکہ سے نکالے جا چکے تھے، سال ڈیڑھ سال سے مدینے میں پناہ گزیں تھے، اور کفار کے مظالم سے تنگ آکر خود بار بار مطالبہ کرچکے تھے کہ ہمیں لڑنے کی اجازت دی جائے۔ مگر جب انہیں لڑائی کا حکم دے دیا گیا، تو اب ان میں بعض لوگ کسمسا رہے تھے، جیسا کہ چھبیسویں رکوع کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔ اس لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے دو اہم واقعات سے انہیں عبرت دلائی گئی ہے۔ سورة الْبَقَرَة 266 یہ اشارہ بنی اسرائیل کے واقعہ خروج کی طرف ہے۔ سورة مائدہ کے چوتھے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں مصر سے نکلے تھے۔ دشت و بیاباں میں بےخانماں پھر رہے تھے۔ خود ایک ٹھکانے کے لیے بےتاب تھے۔ مگر جب اللہ کے ایما سے حضرت موسیٰ ؑ نے ان کو حکم دیا کہ ظالم کنعانیوں کو ارض فلسطین سے نکال دو اور اس علاقے کو فتح کرلو، تو انہوں نے بزدلی دکھائی اور آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔ آخر کار اللہ نے انہیں چالیس سال تک زمین میں سرگرداں پھرنے کے لیے چھوڑ دیا یہاں تک کہ ان کی ایک نسل ختم ہوگئی اور دوسری نسل صحراؤں کی گود میں پل کر اٹھی۔ تب اللہ تعالیٰ نے انہیں کنعانیوں پر غلبہ عطا کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی معاملے کو موت اور دوبارہ زندگی کے الفاظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
Top