Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 29
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ۗ ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
ھُوَ : وہی ہے الَّذِىْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا لَكُمْ : واسطے تمہارے مَّا : جو کچھ ہے فِى الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سارے کا سارا / سب کچھ ثُمَّ : پھر اسْتَوٰٓى : وہ متوجہ ہوا / ارادہ کیا اِلَى : طرف السَّمَآءِ : آسمان کے فَسَوّٰىھُنَّ : پس برابر کردیا ان کو / درست بنایا ان کو / ہموار کیا ان کو سَبْعَ : سات سَمٰوٰتٍ : آسمانوں کو وَ : اور ھُوَ : وہ بِكُلِّ : ساتھ ہر شَىْءٍ : چیز کے عَلِيْمٌ : خوب علم والا ہے
وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں،پھر اُوپر کی طرف توجّہ فرمائی اور سات آسمان34 استوار کیے۔اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ 35
سورة الْبَقَرَة 34 سات آسمانوں کی حقیقت کیا ہے، اس کا تعیّن مشکل ہے۔ انسان ہر زمانے میں آسمان، یا با لفاظ دیگر ماورائے زمین کے متعلق اپنے مشاہدات یا قیاسات کے مطابق مختلف تصوّرات قائم کرتا رہا ہے، جو برابر بدلتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان میں سے کسی تصوّر کو بنیاد قرار دے کر قرآن کے ان الفاظ کا مفہُوم متعین کرنا صحیح نہ ہوگا۔ بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ماوراء جس قدر کائنات ہے، اسے اللہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، یا یہ کہ زمین اس کائنات کے جس حلقہ میں واقع ہے، وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے۔ سورة الْبَقَرَة 35 اس فقرے میں دو اہم حقیقتوں پر متنبّہ فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ تم اس خدا کے مقابلے میں کفر و بغاوت کا رویّہ اختیار کرنے کی جراٴت کیسے کرتے ہو جو تمہاری تمام حرکات سے باخبر ہے، جس سے تمہاری کوئی حرکت چھپی نہیں رہ سکتی۔ ُ دوسرے یہ کہ جو خدا تمام حقائق کا علم رکھتا ہے، جو درحقیقت علم کا سرچشمہ ہے، اس سے منہ موڑ کر بجز اس کے کہ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکو اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ جب اس کے سوا علم کا اور کوئی منبع ہی نہیں ہے، جب اس کے سوا اور کہیں سے وہ روشنی نہیں مل سکتی جس میں تم اپنی زندگی کا راستہ صاف دیکھ سکو، تو آخر اس سے رو گردانی کرنے میں کیا فائدہ تم نے دیکھا ہے ؟
Top