Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّکَ : تمہارے رب نے لِلْمَلَائِکَةِ : فرشتوں سے اِنِّیْ : میں جَاعِلٌ : بنانے والا ہوں فِي الْاَرْضِ : زمین میں خَلِیْفَةً : ایک نائب قَالُوْا : انہوں نے کہا اَتَجْعَلُ : کیا آپ بنائیں گے فِیْهَا : اس میں مَنْ يُفْسِدُ : جو فساد کرے گا فِیْهَا : اس میں وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ : اور بہائے گا خون وَنَحْنُ : اور ہم نُسَبِّحُ : بےعیب کہتے ہیں بِحَمْدِکَ : آپ کی تعریف کے ساتھ وَنُقَدِّسُ : اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَکَ : آپ کی قَالَ : اس نے کہا اِنِّیْ : بیشک میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
36پھر ذرا اس وقت کا تصوّر کرو جب تمہارے ربّ نے فرشتوں37 سے کہا تھاکہ”میں زمین میں ایک خلیفہ38 بنانے والا ہوں“ انہوں نے عرض کیا ”کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرےگا؟ 39آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کےلیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں40“ فرمایا ”میں جانتا ہوں،جو کچھ تم نہیں جانتے41
سورة الْبَقَرَة 36 اُوپر کے رکوع میں بندگیِ رب کی دعوت اس بنیاد پر دی گئی تھی کہ وہ تمہارا خالق ہے، پروردگار ہے، اسی کے قبضہ قدرت میں تمہاری زندگی و موت ہے، اور جس کائنات میں تم رہتے ہو، اس کا مالک و مدبّر وہی ہے، لہٰذا اس کی بندگی کے سوا تمہارے لیے اور کوئی دوسرا طریقہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ اب اس رکوع میں وہی دعوت اس بنیاد پر دی جارہی ہے کہ اس دنیا میں تم کو خدا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے، خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اس کی بندگی کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنے ازلی دشمن شیطان کے اشاروں پر چلے، تو بدترین بغاوت کے مجرم ہو گے اور بدترین انجام دیکھو گے۔ اس سلسلے میں انسان کی حقیقت اور کائنات میں اس کی حیثیت ٹھیک ٹھیک بیان کردی گئی ہے اور نوع انسانی کی تاریخ کا وہ باب پیش کیا گیا ہے جس کے معلوم ہونے کا کوئی دوسرا ذریعہ انسان کو میسر نہیں ہے۔ اس باب سے جو اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں، وہ ان نتائج سے بہت زیادہ قیمتی ہیں جو زمین کی تہوں سے متفرق ہڈیاں نکال کر اور انہیں قیاس وتخمین سے ربط دے کر آدمی اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سورة الْبَقَرَة 37 مَلَک کے اصل معنی عربی میں ”پیامبر“ کے ہیں۔ اسی کا لفظی ترجمہ فرستادہ یا فرشتہ ہے۔ یہ محض مجرّد قوتیں نہیں ہیں، جو تشخُّص نہ رکھتی ہوں، بلکہ یہ شخصیت رکھنے والی ہستیاں ہیں، جن سے اللہ اپنی اس عظیم الشان سلطنت کی تدبیر و انتظام میں کام لیتا ہے۔ یُوں سمجھنا چاہیے کہ یہ سلطنت الہٰی کے اہل کار ہیں جو اللہ کے احکام کو نافذ کرتے ہیں۔ جاہل لوگ انہیں غلطی سے خدائی میں حصّہ دار سمجھ بیٹھے اور بعض نے انہیں خدا کا رشتہ دار سمجھا اور ان کو دیوتا بنا کر ان کی پرستش شروع کردی۔ سورة الْبَقَرَة 38 خلیفہ وہ جو کسی کی ملک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ خلیفہ مالک نہیں ہوتا، بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے، بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا، بلکہ اس کا کام مالک کے منشا کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے اور تفویض کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے، یا اصل مالک کے سوا کسی اور کو مالک تسلیم کر کے اس کے منشا کی پیروی اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے لگے، تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہونگے۔ سورة الْبَقَرَة 39 یہ فرشتوں کا اعتراض نہ تھا بلکہ استفہام تھا۔ فرشتوں کی کیا مجال کہ خدا کی کسی تجویز پر اعتراض کریں۔ وہ ”خلیفہ“ کے لفظ سے یہ تو سمجھ گئے تھے کہ اس زیر تجویز مخلوق کو زمین میں کچھ اختیارات سپرد کیے جانے والے ہیں، مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ سلطنتِ کائنات کے اس نظام میں کسی با اختیار مخلوق کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے، اور اگر کسی کی طرف کچھ ذرا سے بھی اختیارات منتقل کردیے جائیں، تو سلطنت کے جس حصّے میں بھی ایسا کیا جائے گا، وہاں کا انتظام خرابی سے کیسے بچ جائے گا۔ اسی بات کو وہ سمجھنا چاہتے تھے۔ سورة الْبَقَرَة 40 ”اس فقرے سے فرشتوں کا مدّعا یہ نہ تھا کہ خلافت ہمیں دی جائے، ہم اس کے مستحق ہیں، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ حضور کے فرامین کی تعمیل ہو رہی ہے، آپ کے احکام بجا لانے میں ہم پوری طرح سرگرم ہیں، مرضی مبارک کے مطابق سارا جہان پاک صاف رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ آپ کی حمد و ثنا اور آپ کی تسبیح و تقدیس بھی ہم خدام ادب کر رہے ہیں، اب کمی کس چیز کی ہے کہ اس کے لیے ایک خلیفہ کی ضرورت ہو ؟ ہم اس کی مصلحت نہیں سمجھ سکے۔ (تسبیح کا لفظ ذو معنیین ہے۔ اس کے معنی پاکی بیان کرنے کے بھی ہیں اور سرگرمی کے ساتھ کام اور انہماک کے ساتھ سعی کرنے کے بھی۔ اسی طرح تقدیس کے بھی دو معنی ہیں، ایک تقدیس کا اظہار وبیان، دوسرے پاک کرنا)۔ سورة الْبَقَرَة 41 یہ فرشتوں کے دوسرے شبہہ کا جواب ہے۔ یعنی فرمایا کہ خلیفہ مقرر کرنے کی ضرورت و مصلحت میں جانتا ہوں تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ اپنی جن خدمات کا تم ذکر کر رہے ہو، وہ کافی نہیں ہیں، بلکہ ان سے بڑھ کر کچھ مطلب ہے۔ اسی لیے زمین میں ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے جس کی طرف کچھ اختیارات منتقل کیے جائیں۔
Top