Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 36
فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ١۪ وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
فَاَزَلَّهُمَا : پھر ان دونوں کو پھسلایا الشَّيْطَانُ : شیطان عَنْهَا : اس سے فَاَخْرَجَهُمَا : پھر انہیں نکلوا دیا مِمَّا ۔ کَانَا : سے جو۔ وہ تھے فِیْهِ : اس میں وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ بَعْضُكُمْ : تمہارے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے عَدُوْ : دشمن وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُسْتَقَرٌّ : ٹھکانہ وَمَتَاعٌ : اور سامان اِلٰى۔ حِیْنٍ : تک۔ وقت
آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی تر غیب دیکر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹایا اور انہیں اس حالت سے نکلواکر چھوڑا، جس میں وہ تھے۔ہم نے حکم دیا کہ ”اب تم سب یہاں سے اُتر جاوٴ،تم ایک دوسرے کے دُشمن50 ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے۔“
سورة الْبَقَرَة 50 یعنی انسان کا دشمن شیطان، اور شیطان کا دشمن انسان۔ شیطان کا دشمن انسان ہونا تو ظاہر ہے کہ وہ اسے اللہ کی فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا انسان کا دشمن شیطان ہونا، تو فی الواقع انسانیت تو اس سے دشمنی ہی کی مقتضی ہے، مگر خواہشات نفس کے لیے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے، ان سے دھوکا کھا کر آدمی اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اس طرح کی دوستی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حقیقتًہ دشمنی دوستی میں تبدیل ہوگئی، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک دشمن دوسرے دشمن سے شکست کھا گیا اور اس کے جال میں پھنس گیا۔
Top