Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 37
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
فَتَلَقّٰى : پھر حاصل کرلیے اٰدَمُ : آدم مِنْ رَّبِهٖ : اپنے رب سے کَلِمَاتٍ : کچھ کلمے فَتَابَ : پھر اس نے توبہ قبول کی عَلَيْهِ : اس کی اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِیْمُ : رحم کرنے والا
اس وقت آدم نے اپنے ربّ سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی51 ،جس کو اس کے ربّ نے قبول کرلیا ،کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔52
سورة الْبَقَرَة 51 یعنی آدم کو جب اپنے قصور کا احساس ہوا اور انہوں نے نافرمانی سے پھر فرماں برداری کی طرف رجوع کرنا چاہا، اور ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے رب سے اپنی خطا معاف کرائیں، تو انہیں وہ الفاظ نہ ملتے تھے جن کے ساتھ وہ خطا بخشی کے لیے دعا کرسکتے۔ اللہ نے ان کے حال پر رہم فرما کر وہ الفاظ بتا دیے۔ توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے اور پلٹنے کے ہیں۔ بندہ کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرکشی سے باز آگیا، طریق بندگی کی طرف پلٹ آیا۔ اور خدا کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے شرمسار غلام کی طرف رحمت کے ساتھ متوجّہ ہوگیا، پھر سے نظر عنایت اس کی طرف مائل ہوگئی۔ سورة الْبَقَرَة 52 قرآن اس نظریّے کی تردید کرتا ہے کہ گناہ کے نتائج لازمی ہیں، اور وہ بہر حال انسان کو بھگتنے ہی ہوں گے۔ یہ انسان کے اپنے خود ساختہ گمراہ کُن نظریّات میں سے ایک بڑا گمراہ کُن نظریہ ہے، کیونکہ جو شخص ایک مرتبہ گناہ گار انہ زندگی میں مبتلا ہوگیا، اس کو یہ نظریّہ ہمیشہ کے لیے مایوس کردیتا ہے اور اگر اپنی غلطی پر متنبّہ ہونے کے بعد وہ سابق کی تلافی اور آئندہ کے لیے اصلاح کرنا چاہے، تو یہ اس سے کہتا ہے کہ تیرے بچنے کی اب کوئی اُمّید نہیں، جو کچھ تو کرچکا ہے اس کے نتائج بہرحال تیری جان کے لاگو ہی رہیں گے۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ بھلائی کی جزا اور برائی کی سزا دینا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ تمہیں جس بھلائی پر انعام ملتا ہے وہ تمہاری بھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں ہے کہ لازماً مترتب ہو کر ہی رہے، بلکہ اللہ پورا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے معاف کر دے اور چاہے سزا دے دے۔ البتہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت اس کی حکمت کے ساتھ ہمرشتہ ہے۔ وہ چونکہ حکیم ہے اس لیے اپنے اختیارات کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا۔ جب کسی بھلائی پر انعام دیتا ہے تو یہ دیکھ کر ایسا کرتا ہے کہ بندے نے سچی نیت کے ساتھ اس کی رضا کے لیے بھلائی کی تھی۔ اور جس بھلائی کو رَد کردیتا ہے، اسے اس بنا پر رَد کرتا ہے کہ اس کی ظاہری شکل بھلے کام کی سی تھی، مگر اندر اپنے رب کی رضا جوئی کا خالص جذبہ نہ تھا۔ اسی طرح وہ سزا اس قصور پر دیتا ہے جو باغیانہ جسارت کے ساتھ کیا جائے اور جس کے پیچھے شرمساری کے بجائے مزید ارتکاب جرم کی خواہش موجود ہو۔ اور اپنی رحمت سے معافی اس قصور پر دیتا ہے، جس کے بعد بندہ اپنے کیے پر شرمندہ اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح پر آمادہ ہو۔ بڑے سے بڑے مجرم، کٹّے سے کٹّے کافر کے لیے بھی خدا کے ہاں مایوسی و ناامیدی کا کوئی موقع نہیں بشرطیکہ وہ اپنی غلطی کا معترف، اپنی نافرمانی پر نادم، اور بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت کی روش اختیار کرنے کے لیے تیار ہو۔
Top