Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہم نے کہا کہ”تم سب یہاں سے اُتر جاوٴ۔53 پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیر وی کریں گے ،ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا
سورة الْبَقَرَة 53 اس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے۔ اوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کرلی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آدم اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے۔ گناہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا، نہ ان کی نسل کے دامن پر اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی کہ معاذ اللہ ! خدا کو اپنا اکلوتا بھیج کر نوع انسانی کا کفّارہ ادا کرنے کے لیے سولی پر چڑھوانا پڑتا۔ برعکس اس کے اللہ نے آدم ؑ کی توبہ ہی قبول کرنے پر اکتفا نہ فرمایا، بلکہ اس کے بعد انہیں نبوت سے بھی سرفراز کیا تاکہ وہ اپنی نسل کو سیدھا راستہ بتا کر جائِں۔ اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دہرایا گیا، تو اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قبول توبہ کا یہ مقتضی نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اتارا جاتا۔ زمین ان کے لیے دارالعذاب نہ تھی، وہ یہاں سزا کے طور پر نہیں اتارے گئے، بلکہ انہیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ جنت ان کی اصلی جائے قیام نہ تھی۔ وہاں سے نکلنے کا حکم ان کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اتارنے کی تھی۔ البتہ اس سے پہلے ان کو اس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا، جس کا ذکر اوپر 48 میں کیا جا چکا ہے۔
Top