Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 39
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠   ۧ
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا : اور جن لوگوں نے کفر کیا وَکَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِآيَاتِنَا : ہماری آیات أُوْلَٰئِکَ : وہی اَصْحَابُ النَّار : دوزخ والے هُمْ فِیْهَا : وہ اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو اس کو قبو ل کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے54، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔“55
سورة الْبَقَرَة 54 آیات جمع ہے آیت کی۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن میں یہ لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے۔ کہیں آثار کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے، کیونکہ مظاہر قدرت میں سے ہر چیز اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس ظاہری پردے کے پیچھے مستور ہے۔ کہیں ان معجزات کو آیات کہا گیا ہے جو انبیاء (علیہم السلام) لے کر آتے تھے، کیونکہ یہ معجزے دراصل اس بات کی علامت ہوتے تھے کہ یہ لوگ فرمانروائے کائنات کے نمائندے ہیں۔ کہیں کتاب اللہ کے فقروں کو آیات کہا گیا ہے، کیونکہ وہ نہ صرف حق اور صداقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، بلکہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے جو کتاب بھی آتی ہے، اس کے محض مضامین ہی میں نہیں، اس کے الفاظ اور انداز بیان اور طرز عبادت تک میں اس کے جلیل القدر مصنّف کی شخصیت کے آثار نمایاں طور پر محسوس ہوتے ہیں۔۔۔۔ ہر جگہ عبارت کے سیاق وسباق سے بآسانی معلوم ہوجاتا ہے کہ کہاں ”آیت“ کا لفظ کس معنی میں آیا ہے۔ سورة الْبَقَرَة 55 یہ نسل انسانی کے حق میں ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو تیسرے رکوع میں اللہ کے ”عہد“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسان کا کام خود راستہ تجویز کرنا نہیں ہے، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گونہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامور ہے کہ اس راستے کی پیروی کرے جو اس کا رب اس کے لیے تجویز کرے۔ اور اس راستے کے معلوم ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو کسی انسان کے پاس براہ راست اللہ کی طرف سے وحی آئے، یا پھر وہ اس انسان کا اتباع کرے جس کے پاس وحی آئی ہو۔ کوئی تیسری صورت یہ معلوم ہونے کی نہیں ہے کہ رب کی رضا کس راہ میں ہے۔ ان دو صورتوں کے ماسوا ہر صورت غلط ہے، بلکہ غلط ہی نہیں، سراسر بغاوت بھی ہے، جس کی سزا جہنّم کے سوا اور کچھ نہیں۔ قرآن مجید میں آدم کی پیدائش اور نوع انسانی کی ابتدا کا یہ قصّہ سات مقامات پر آیا ہے، جن میں سے پہلا مقام یہ ہے اور باقی مقامات حسب ذیل ہیں الاعراف، رکوع 2۔ بنی اسرائیل، رکوع 7۔ الکہف، رکوع 7، طٰہٰ ، رکوع 7۔ صٓ، رکوع 5۔ بائیبل کی کتاب پیدائش، باب اوّل، دوم و سوم میں بھی یہ قصّہ بیان ہوا ہے۔ لیکن دونوں کا مقابلہ کرنے سے ہر صاحب نظر انسان محسوس کرسکتا ہے کہ دونوں کتابوں میں کیا فرق ہے۔ آدم ؑ کی تخلیق کے وقت اللہ اور فرشتوں کی گفتگو کا ذکر تلمود میں بھی آیا ہے، مگر وہ بھی اس معنوی روح سے خالی ہے جو قرآن کے بیان کردہ قصہ میں پائی جاتی ہے بلکہ اس میں لطیفہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب فرشتوں نے اللہ سے پوچھا، انسانوں کو آخر کیوں پیدا کیا جا رہا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا۔ تاکہ ان میں نیک لوگ پیدا ہوں " بد لوگوں کا ذکر اللہ نے نہیں کیا ورنہ فرشتے انسان کی تخلیق کی منظوری نہ دیتے۔
Top