Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 42
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَلَا تَلْبِسُوْا : اور نہ ملاؤ الْحَقَّ : حق بِالْبَاطِلِ : باطل سے وَتَكْتُمُوْا : اور ( نہ) چھپاؤ الْحَقَّ : حق وَ اَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
باطل کا رنگ چڑھاکر حق کو مشتبہ نہ بناوٴاور نہ جانتے بوجھتےحق کو چھپانے کی کوشش کرو۔58
سورة الْبَقَرَة 58 اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اہل عرب بالعمُوم ناخواندہ لوگ تھے اور ان کے مقابلے میں یہودیوں کے اندر ویسے بھی تعلیم کا چرچا زیادہ تھا، اور انفرادی طور پر ان میں ایسے ایسے جلیل القدر عالم پائے جاتے تھے جن کی شہرت عرب کے باہر تک پہنچی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے عربوں پر یہودیوں کا علمی رعب بہت زیادہ تھا۔ پھر ان کے علما اور مشائخ نے اپنے مذہبی درباروں کی ظاہری شان جما کر اور اپنی جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار چلا کر اس رعب کو اور بھی زیادہ گہرا اور وسیع کردیا تھا۔ خصُوصیت کے ساتھ اہل مدینہ ان سے بےحد مرعوب تھے، کیونکہ ان کے آس پاس بڑے بڑے یہودی قبائل آباد تھے، رات دن کا ان سے میل جول تھا، اور اس میل جول میں وہ ان سے اسی طرح شدت کے ساتھ متاثر تھے جس طرح ایک ان پڑھ آبادی زیادہ تعلیم یافتہ، زیادہ متمدّن اور زیادہ نمایاں مذہبی تشخّص رکھنے والے ہمسایوں سے متاثر ہوا کرتی ہے۔ ان حالات میں جب نبی ﷺ نے اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینی شروع کی، تو قدرتی بات تھی کہ ان پڑھ عرب اہل کتاب یہودیوں سے جا کر پوچھتے کہ آپ لوگ بھی ایک نبی کے پیرو ہیں اور ایک کتاب کو مانتے ہیں، آپ ہمیں بتائیں کہ یہ صاحب جو ہمارے اندر نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں، ان کے متعلق اور ان کی تعلیم کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔ چناچہ یہ سوال مکّے کے لوگوں نے بھی یہودیوں سے بارہا کیا، اور جب نبی ﷺ مدینے تشریف لائے، تو یہاں بھی بکثرت لوگ یہودی علما کے پاس جاجا کر یہی بات پوچھتے تھے۔ مگر ان علماء نے کبھی لوگوں کو صحیح بات نہ بتائی۔ ان کے لیے یہ کہنا تو مشکل تھا کہ وہ توحید، جو محمد ﷺ پیش کر رہے ہیں غلط ہے، یا انبیاء اور کتب آسمانی اور ملائکہ اور آخرت کے بارے میں جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں، اس میں کوئی غلطی ہے، یا وہ اخلاقی اصول، جن کی آپ تعلیم دے رہے ہیں، ان میں سے کوئی چیز غلط ہے۔ لیکن وہ صاف صاف اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ جو کچھ آپ ﷺ پیش کر رہے ہیں، وہ صحیح ہے۔ وہ نہ سچائی کی کھلی کھلی تردید کرسکتے تھے، نہ سیدھی طرح اس کو سچائی مان لینے پر آمادہ تھے۔ ان دونوں راستوں کے درمیان انہوں نے طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ ہر سائل کے دل میں نبی ﷺ کے خلاف، آپ ﷺ کی جماعت کے خلاف، اور آپ ﷺ کے مشن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتے تھے، کوئی الزام آپ ﷺ پر چسپاں کردیتے تھے، کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے تھے جس سے لوگ شکوک و شبہات میں پڑجائیں، اور طرح طرح کے الجھن میں ڈالنے والے سوالات چھیڑ دیتے تھے تاکہ لوگ ان میں خود بھی الجھیں اور نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے پیرو وں کو بھی الجھا نے کی کوشش کریں۔ ان کا یہی رویّہ تھا، جس کی بنا پر ان سے فرمایا جارہا ہے کہ حق پر باطل کے پردے نہ ڈالو، اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اور شریرانہ شبہات و اعتراضات سے حق کو دبانے اور چھپانے کی کوشش نہ کرو، اور حق و باطل کو خلط ملط کر کے دنیا کو دھوکا نہ دو۔
Top