Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا ، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی ، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مِل سکے گی۔63
سورة الْبَقَرَة 63 بنی اسرائیل کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ آخرت کے متعلق ان کے عقیدے میں خرابی آگئی تھی۔ وہ اس قسم کے خیالات خام میں مبتلا ہوگئے تھے کہ ہم جلیل القدر انبیا کی اولاد ہیں، بڑے بڑے اولیا، صُلحا اور زہاد سے نسبت رکھتے ہیں، ہماری بخشش تو انہیں بزرگوں کے صدقے میں ہوجائے گی، ان کا دامن گرفتہ ہو کر بھلا کوئی سزا کیسے پاسکتا ہے۔ انہیں جھوٹے بھروسوں نے ان کو دین سے غافل اور گناہوں کے چکّر میں مبتلا کردیا تھا۔ اس لیے نعمت یاد دلانے کے ساتھ فوراً ہی ان کی ان غلط فہمیوں کو دور کردیا گیا ہے۔
Top