Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 29
وَ مَنْ یَّقُلْ مِنْهُمْ اِنِّیْۤ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهٖ فَذٰلِكَ نَجْزِیْهِ جَهَنَّمَ١ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يَّقُلْ : کہے مِنْهُمْ : ان میں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اِلٰهٌ : معبود مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَذٰلِكَ : پس وہ شخص نَجْزِيْهِ : ہم اسے سزا دیں گے جَهَنَّمَ : جہنم كَذٰلِكَ : اسی طرح نَجْزِي : ہم سزا دیتے ہیں الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جو اُن میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک خدا ہوں، تو اُسے ہم جہنّم کی سزا دیں، ہمارے ہاں ظالموں کا یہی بدلہ ہے
سورة الْاَنْبِیَآء 27 مشرکین فرشتوں کو دو وجوہ سے معبود بناتے تھے۔ ایک یہ کہ انکے نزدیک وہ خدا کی اولاد تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ انکی پرستش (خوشامد) کر کے انہیں خدا کے ہاں اپنا شفیع (سفارشی) بنانا چاہتے تھے۔ وَیَقُوْلُوْ نَ ھٰؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عند اللہ (یونس۔ آیت۔ 18۔ اور مانَعْبُدُھُمْ الاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفاً ہ (الزمر۔ آیت 3)۔ ان آیات میں دونوں وجوہ کی تردید کردی گئی ہے۔ اس جگہ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ جنہیں تم شفیع قرار دیتے ہو وہ علم غیب نہیں رکھتے اور یہ اللہ تعالیٰ ان باتوں کو بھی جانتا ہے جو ان کے سامنے ہیں اور ان باتوں کو بھی جو ان سے اوجھل ہیں۔ اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ آخر ان کو سفارش کرنے کا مطلق اور غیر مشروط اختیار کیسے حاصل ہوسکتا ہے جب کہ وہ ہر شخص کے اگلے پچھلے اور پوشیدہ و ظاہر حالات سے واقف نہیں ہیں۔ اس لیے ٰوہ فرشتے ہوں یا انبیاء و صالحین، ہر ایک کا اختیار شفاعت لازماً اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کسی کے حق میں شفاعت کی اجازت دے۔ بطور خود ہر کس و ناکس کی شفاعت کردینے کا کوئی بھی مجاز نہیں ہے۔ اور جب شفاعت سننا یا نہ سننا اور اسے قبول کرنا یا نہ کرنا بالکل اللہ کی مرضی پر موقوف ہے تو ایسے بےاختیار شفیع اس قابل کب ہو سکتے ہیں کہ ان کے آگے سر نیاز جھکایا جائے اور دست سوال دراز کیا جائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ ، حاشیہ 85۔ 86)
Top