Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 33
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن وَالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند كُلٌّ : سب فِيْ فَلَكٍ : دائرہ (مدار) میں يَّسْبَحُوْنَ : تیر رہے ہیں
اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سُورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تَیر رہے ہیں۔ 35
سورة الْاَنْبِیَآء 35 کُلٌّ اور یَسْبَحُوْنَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ مراد صرف سورج اور چاند ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے اجرام فلکی، یعنی تارے بھی مراد ہیں، ورنہ جمع کے بجائے تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا جاتا۔ فَلَکِ جو فارسی کے چرخ اور گردوں کا ٹھیک ہم معنی ہے، عربی زبان میں آسمان کے معروف ناموں میں سے ہے۔ " سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں " سے دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سب تارے ایک ہی " فلک " میں نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کا فلک الگ ہے۔ دوسرے یہ کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں یہ تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوئے ہوں اور وہ خود انہیں لیے ہوئے گھوم رہا ہو، بلکہ وہ کوئی سیال شے ہے یا فضا اور خلا کی سی نوعیت کی چیز ہے جس میں ان تاروں کی حرکت تیرنے کے فعل سے مشابہت رکھتی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، یٰسین، حاشیہ 37)۔ قدیم زمانے میں لوگوں کے لیے آسمان و زمین کے رتق و فتق، اور پانی سے ہر زندہ چیز کے پیدا کیے جانے، اور تاروں کے ایک ایک فلک میں تیرنے کا مفہوم کچھ اور تھا، موجودہ زمانے میں طبعیات (Physics) ، حیاتیات، (Biology) اور علم ہیئت (Astronomy) کی جدید معلومات نے ہمارے لیے ان کا مفہوم کچھ اور کردیا ہے، اور نہیں کہہ سکتے کہ آگے چل کر انسان کو جو معلومات حاصل ہونی ہیں وہ ان الفاظ کے کن معانی پر روشنی ڈالیں گی۔ بہرحال موجودہ زمانے کا انسان ان تینوں آیات کو بالکل اپنی جدید ترین معلومات کے مطابق پاتا ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ وَلَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض سے لے کر کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ تک کی تقریر شرک کی تردید میں ہے، اور اَوَلَمْ یَرَا لَّذِیْنَ کَفَرُوْ سے لے کر فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ تک جو کچھ فرمایا گیا ہے اس میں توحید کے لیے ایجابی (Positive) دلائل دیے گئے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ یہ نظام کائنات جو تمہارے سامنے ہے، کیا اس میں کہیں ایک اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور کی بھی کوئی کاریگری تمہیں نظر آتی ہے ؟ کیا یہ نظام ایک سے زیادہ خداؤں کی کار فرمائی میں بن سکتا تھا اور اس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا تھا ؟ کیا اس حکیمانہ نظام کے متعلق کوئی صاحب عقل و خرد آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ یہ ایک کھلندڑے کا کھیل ہے اور اس نے محض تفریح کے لیے چند گرویاں بنائی ہیں جن سے کچھ مدت کھیل کر بس وہ یونہی ان کو خاک میں ملا دے گا ؟ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور پھر بھی نبی کی بات ماننے سے انکار کیے جاتے ہو ؟ تم کو نظر نہیں آتا زمین و آسمان کی ایک ایک چیز اس نظریہ توحید کی شہادت دے رہی ہے جو یہ نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ؟ ان نشانیوں کے ہوتے تم کہتے ہو کہ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ ، " یہ نبی کوئی نشانی لے کر آئے " کیا نبی کی دعوت توحید کے حق ہونے پر گواہی دینے کے لیے یہ نشانیاں کافی نہیں ہیں ؟
Top