Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 5
بَلْ قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۭ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ١ۖۚ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ
بَلْ : بلکہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَضْغَاثُ : پریشان اَحْلَامٍ : خواب بَلِ : بلکہ افْتَرٰىهُ : اسنے گھڑ لیا بَلْ هُوَ : بلکہ وہ شَاعِرٌ : ایک شاعر فَلْيَاْتِنَا : پس وہ ہمارے پاس لے آئے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی كَمَآ : جیسے اُرْسِلَ : بھیجے گئے الْاَوَّلُوْنَ : پہلے
وہ کہتے ہیں ”بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں ، بلکہ یہ اِس کی من گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے۔ 7 ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسُول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے
سورة الْاَنْبِیَآء 7 اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی ﷺ کی دعوت کا اثر جب پھیلنے لگا تو مکہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کے مقابلے میں پروپیگنڈا کی ایک مہم شروع کی جائے اور ہر اس شخص کو، جو مکہ میں زیارت کے لیے آئے آپ کے خلاف پہلے ہی سے اتنا بد گمان کردیا جائے کہ وہ آپ کی بات سننے کے لیے آمدہ ہی نہ ہو۔ یہ مہم ویسے تو بارہ مہینے جاری رہتی تھی، مگر خاص طور پر حج کے زمانے میں کثرت سے آدمی پھیلا دیے جاتے تھے جو تمام بیرونی زائرین کے خیموں میں پہنچ کر ان کو خبردار کرتے پھرتے تھے کہ یہاں ایسا ایسا ایک آدمی ہے، اس سے ہوشیار رہنا۔ ان گفتگوؤں میں طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ ایک کلام اس نے خود گھڑ رکھا ہے، اور کہتا ہے خدا کا کلام ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ اجی وہ کلام کیا ہے، دیوانوں کی بڑ اور پراگندہ خیالات کا پلندا ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ شاعرانہ تخیلات اور تک بندیاں ہیں جن کا نام اس نے کلام الہٰی رکھا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو بہکایا جائے۔ صداقت کا ان کے سامنے سرے سے کوئی سوال ہی نہ تھا کہ جم کر کوئی ایک قطعی اور جچی تلی رائے ظاہر کرتے۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا حاصل جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ نبی ﷺ کا نام انہوں نے خود ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا۔ آپ کی جتنی شہرت مسلمانوں کی کوششوں سے سالہا سال میں بھی نہ ہو سکتی تھی وہ قریش کی اس مخالفانہ مہم سے تھوڑی مدت ہی کے اندر ہوگئی۔ ہر شخص کے دل میں ایک سوال پیدا ہوگیا کہ آخر معلوم تو ہو وہ کون ایسا آدمی ہے جس کے خلاف یہ طوفان برپا ہے، اور بہت سے سوچنے والوں نے سوچا کہ اس شخص کی بات سنی تو جائے۔ ہم کوئی بچے تو نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ بہک جائیں گے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال طُفَیل بن عمرو دوسی کا قصہ ہے جسے ابن اسحاق نے خود ان کی روایت سے بڑی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں قبیلہ دوس کا ایک شاعر تھا۔ کسی کام سے مکہ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قریش کے چند لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور نبی ﷺ کے خلاف خوب میرے کان بھرے یہاں تک کہ میں آپ سے سخت بد گمان ہوگیا اور میں نے طے کرلیا کہ آپ سے بچ کر ہی رہوں گا۔ دوسرے روز میں نے حرم میں حاضری دی تو آپ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ میرے کانوں میں چند جملے جو پڑے تو میں نے محسوس کیا کہ یہ تو کوئی بڑا اچھا کلام ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں شاعر ہوں، جوان مرد ہوں، عقل رکھتا ہوں، کوئی بچہ نہیں ہوں کہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ کرسکوں۔ آخر کیوں نہ اس شخص سے مل کر معلوم کروں کہ یہ کیا کہتا ہے۔ چناچہ جب نبی ﷺ نماز سے فارغ ہو کر واپس چلے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور آپ کے مکان پر پہنچ کر میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق مجھ سے یہ یہ کچھ کہا تھا، اور میں آپ سے اس قدر بد گمان ہوگیا تھا کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ آپ کی آواز نہ سننے پاؤں۔ لیکن ابھی جو چند کلمے میں نے آپ کی زبان سے سنے ہیں وہ مجھے کچھ اچھے معلوم ہوئے۔ آپ مجھے ذرا تفصیل سے بتائیے، آپ کیا کہتے ہیں۔ نبی ﷺ نے جواب میں مجھ کو قرآن کا ایک حصہ سنایا اور میں اس سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا۔ پھر واپس جا کر میں نے اپنے باپ اور بیوی کو مسلمان کیا۔ اس کے بعد اپنے قبیلے میں مسلسل اشاعت اسلام کرتا رہا، یہاں تک کہ غزوہ خندق کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے میرے قبیلے کے ستر اسی گھرانے مسلمان ہوگئے۔ (ابن ہشام جلد 2، ص 22۔ 24) ایک اور روایت جو ابن اسحاق نے نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرداران قریش اپنی محفلوں میں خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ جو باتیں وہ نبی ﷺ کے خلاف بناتے ہیں وہ محض جھوٹ ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مجلس میں نضر بن حارث نے تقریر کی کہ " تم لوگ محمد ﷺ کا مقابلہ جس طرح کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ وہ جب تمہارے درمیان نو عمر جوان تھا تو تمہارا سب سے زیادہ خوش اطوار آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امین سمجھا جاتا تھا۔ اب کہ اس کے بال سفید ہونے کو آگئے، تم کہتے ہو یہ ساحر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے، مجنون ہے۔ بخدا وہ ساحر نہیں ہے، ہم نے سحروں کو دیکھا ہے اور ان کی جھاڑ پھونک سے ہم واقف ہیں۔ بخدا وہ کاہن بھی نہیں ہے، ہم نے کاہنوں کی تک بندیاں سنی ہیں اور جیسی گول مول باتیں وہ کیا کرتے ہیں انکا ہمیں علم ہے۔ بخدا وہ شاعر بھی نہیں ہے، شعر کی تمام اصناف سے ہم واقف ہیں اور اس کا کلام ان میں سے کسی صنف میں نہیں آتا۔ بخدا وہ مجنون بھی نہیں ہے، مجنون کی جو حالت ہوتی ہے اور جیسی بےتکی بڑ وہ ہانکتا ہے کیا اس سے ہم بیخبر ہیں ؟ اے سرداران قریش، کچھ اور بات سوچو، جس چیز کا مقابلہ تمہیں درپیش ہے وہ اس سے زیادہ بڑی ہے کہ یہ باتیں بنا کر تم اسے شکست دے سکو "۔ اس کے بعد اس نے یہ تجویز پیش کی کہ عجم سے رستم و اسفندیار کے قصے لا کر پھیلائے جائیں تاکہ لوگ ان میں دلچسپی لینے لگیں اور وہ انہیں قرآن سے زیادہ عجیب معلوم ہوں۔ چناچہ کچھ دنوں اس پر عمل کیا گیا اور خود نضر نے داستان گوئی شروع کردی۔ (ابن ہشام جلد اول، ص 32۔ 321)
Top