Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 69
قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ
قُلْنَا : ہم نے حکم دیا يٰنَارُكُوْنِيْ : اے آگ تو ہوجا بَرْدًا : ٹھنڈی وَّسَلٰمًا : اور سلامتی عَلٰٓي : پر اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
ہم نے کہا”اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر۔“ 62
سورة الْاَنْبِیَآء 62 الفاظ صاف بتا رہے ہیں، اور سیاق وسباق بھی اس مفہوم کی تائید کر رہا ہے کہ انہوں نے واقعی اپنے اس فیصلے پر عمل کیا، اور جب آگ کا الاؤ تیار کر کے انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو اس میں پھینکا تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی ہوجائے اور بےضرر بن کر رہ جائے۔ پس صریح طور پر یہ بھی ان معجزات میں سے ایک ہے جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان معجزات کی اس لیے تاویلیں کرتا ہے کہ اس کے نزدیک خدا کے لیے بھی نظام عالم کے معمول (Routine) سے ہٹ کر کوئی غیر معمولی کام کرنا ممکن نہیں ہے، تو آخر وہ خدا کو ماننے ہی کی زحمت کیوں اٹھاتا ہے۔ اور اگر وہ اس طرح کی تاویلیں اس لیے کرتا ہے کہ جدید زمانے کے نام نہاد عقلیت پرست ایسی باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ بندہ خدا، تیرے اوپر یہ فرض کس نے عائد کیا تھا کہ تو کسی نہ کسی طرح انہیں منوا کر ہی چھوڑے ؟ جو شخص قرآن کو، جیسا کہ وہ ہے، ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، اسے اس کے حال پر چھوڑو۔ اسے منوانے کی خاطر قرآن کو اس کے خیالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا، جبکہ قرآن کے الفاظ قدم قدم پر اس ڈھلائی کی مزاحمت کر رہے ہوں، آخر کس قسم کی تبلیغ ہے اور کون معقول آدمی اسے جائز سمجھ سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورة عنکبوت، حاشیہ 39
Top