Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 82
وَ مِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَ یَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ كُنَّا لَهُمْ حٰفِظِیْنَۙ
وَ : اور مِنَ : سے الشَّيٰطِيْنِ : شیطان (جمع) مَنْ يَّغُوْصُوْنَ : جو غوطہ لگاتے تھے لَهٗ : اس کے لیے وَيَعْمَلُوْنَ : اور کرتے تھے وہ عَمَلًا : کام دُوْنَ ذٰلِكَ : اس کے سوا وَكُنَّا : اور ہم تھے لَهُمْ : ان کے لیے حٰفِظِيْنَ : سنبھالنے والے
اور شیاطین میں سے ہم نے ایسے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دُوسرے کام کرتے تھے۔ ان سب کے نگراں ہم ہی تھے۔ 75
سورة الْاَنْبِیَآء 75 سورة سَبَا میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہ وَمَنْ یَّزِغُ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَاب السَّعِیْرِ۔ ہ۔ یَعْمَلُوْنَ لَہ مَا یَشَآءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رَّاسِیَاتٍ ........... فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّہُمْ عَلٰ مَوْتِہٖ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْکَلُ مِنْسَاَتَہ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ " اور جنوں میں سے ایسے جن ہم نے اس کے لیے مسخر کردیے تھے جو اس کے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے، اور جو ہمارے حکم سے کوئی ان میں سے انحراف کرتا تو ہم اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا مزا چکھاتے۔ وہ اس کے لیے جیسے وہ چاہتا قصر اور مجسمے اور حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور بھاری جمی ہوئی دیگیں بناتے تھے ....... پھر جب ہم نے سلیمان کو وفات دے دی تو ان جنوں کو اس کی موت پر مطلع کرنے والی کوئی چیز نہ تھی مگر زمین کا کیڑا (یعنی گھن) جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب وہ گر پڑا تو جنوں کو پتہ چل گیا کہ اگر وہ واقعی غیب داں ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں اتنی مدت تک مبتلا نہ رہتے "۔ اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جو شیاطین حضرت سلیمان کے لیے مسخر ہوئے تھے، اور جو ان کے لیے مختلف خدمات انجام دیتے تھے، وہ جن تھے، اور جن بھی جن جن کے بارے میں مشرکین عرب کا یہ عقیدہ تھا، اور جو خود اپنے بارے میں بھی یہ غلط فہمی رکھتے تھے کہ انکو علم غیب حاصل ہے۔ اب ہر شخص جو قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھے، اور اس کو اپنے تعصبات اور پیشگی قائم کیے ہوئے نظریات کا تابع بنائے بغیر پڑھے، یہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جہاں قرآن مطلق " شیطان " اور " جن " کے الفاظ استعمال کرتا ہے وہاں اس کی مراد کونسی مخلوق ہوتی ہے، اور قرآن کی رو سے وہ کون سے جن ہیں جن کو مشرکین عرب عالم الغیب سمجھتے تھے۔ جدید زمانے کے مفسرین یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ وہ جن اور شیاطین جو حضرت سلیمان کے لیے مسخر کیے گئے تھے، انسان تھے اور آس پاس کی قوموں میں سے فراہم ہوئے تھے۔ لیکن صرف یہی نہیں کہ قرآن کے الفاظ میں ان کی اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ قرآن میں جہاں جہاں بھی یہ قصہ آیا ہے وہاں کا سیاق وسباق اور انداز بیان اس تاویل کو راہ دینے سے صاف انکار کرتا ہے۔ حضرت سلیمان کے لیے عمارتیں بنانے والے اگر انسان ہی تھے تو آخر یہ انہی کی کونسی خصوصیت تھی جس کو اس شان سے قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ اہرام مصری سے لے کر نیویارک کی فلک شگاف عمارتوں تک کس چیز کو انسان نے نہیں بنایا ہے اور کس بادشاہ یا رئیس یا ملک التجار کے لیے وہ " جن " اور " شیاطین " فراہم نہیں ہوئے جو آپ حضرت سلیمان کے لیے فراہم کر رہے ہیں ؟
Top