Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 84
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ
فَاسْتَجَبْنَاج : تو ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی فَكَشَفْنَا : پس ہم نے کھول دی مَا : جو بِهٖ : اس کو مِنْ ضُرٍّ : تکلیف وَّاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے دئیے اسے اَهْلَهٗ : اس کے گھر والے وَمِثْلَهُمْ : اور ان جیسے مَّعَهُمْ : ان کے ساتھ رَحْمَةً : رحمت (فرما کر) مِّنْ : سے عِنْدِنَا : اپنے پاس وَذِكْرٰي : اور نصیحت لِلْعٰبِدِيْنَ : عبادت کرنے والوں کے لیے
ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور جو تکلیف اُسے تھی اس کو دُور کر دیا، 78 اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے، اپنی خاص رحمت کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے۔ 79
سورة الْاَنْبِیَآء 78 سورة ص کے چوتھے رکوع میں اس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ھٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ، " اپنا پاؤں مارو، یہ ٹھنڈا پانی موجود ہے کھانے کو اور پینے کو "۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر پاؤں مارتے ہی اللہ نے ان کے لیے ایک قدرتی چشمہ جاری کردیا جس کے پانی میں یہ خاصیت تھی کہ اس سے غسل کرنے اور اس کو پینے سے ان کی بیماری دور ہوگئی۔ یہ علاج اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کو کوئی سخت جلدی بیماری ہوگئی تھی، اور بائیبل کا بیان بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ ان کا جسم سر سے پاؤں تک پھوڑوں سے بھر گیا تھا (ایوب، باب 2، آیت 7)۔ سورة الْاَنْبِیَآء 79 اس قصے میں قرآن مجید حضرت ایوب کو اس شان سے پیش کرتا ہے کہ وہ صبر کی تصویر نظر آتے ہیں۔ اور پھر کہتا ہے کہ ان کی زندگی عبادت گزاروں کے لیے ایک نمونہ ہے۔ لیکن دوسری طرف بائیبل کی سِفْرِ ایوب پڑھیے تو وہاں آپ کو ایک ایسے شخص کی تصویر نظر آئے گی جو خدا کے خلاف مجسم شکایت، اور اپنی مصیبت پر ہمہ تن فریاد بنا ہوا ہے۔ بار بار اس کی زبان سے یہ فقرے ادا ہوتے ہیں " نابود ہو وہ دن جس میں میں پیدا ہوا۔ "۔ " میں رحم ہی میں کیوں نہ مر گیا "۔ " میں نے پیٹ سے نکلتے ہی کیوں نہ جان دے دی "۔ اور بار بار وہ خدا کے خلاف شکایتیں کرتا ہے کہ " قادر مطلق کے تیر میرے اندر لگے ہوئے ہیں، میری روح ان ہی کے زہر کو پی رہی ہے، خدا کی ڈراؤنی باتیں میرے خلاف صف باندھے ہوئے ہیں "۔ " اے بنی آدم کے ناظر، اگر میں نے گناہ کیا ہے تو تیرا کیا بگاڑتا ہوں ؟ تو نے کیوں مجھے اپنا نشانہ بنا لیا ہے یہاں تک کہ میں اپنے آپ پر بوجھ ہوں تو میرا گناہ کیوں نہیں معاف کرتا اور میری بدکاری کیوں نہیں دور کردیتا ؟ میں خدا سے کہوں گا کہ مجھے ملزم نہ ٹھہرا، مجھے بتا کہ تو مجھ سے کیوں جھگڑتا ہے ؟ کیا تجھے اچھا لگتا ہے کہ اندھیر کرے اور اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیز کو حقیر جانے اور شریروں کی مشورت کو روشن کرے " ؟ اس کے تین دوست اسے آ کر تسلی دیتے ہیں اور اس کو صبر اور تسلیم و رضا کی تلقین کرتے ہیں، مگر وہ نہیں مانتا۔ وہ ان کی تلقین کے جواب میں پے در پے خدا پر الزام رکھے چلا جاتا ہے اور ان کے سمجھانے کے باوجود اصرار کرتا ہے کہ خدا کے اس فعل میں کوئی حکمت و مصلحت نہیں ہے، صرف ایک ظلم ہے جو مجھ جیسے ایک متقی و عبادت گزار آدمی پر کیا جا رہا ہے۔ وہ خدا کے اس انتظام پر سخت اعتراضات کرتا ہے کہ ایک طرف بدکار نوازے جاتے ہیں اور دوسری طرف نیکو کار ستائے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے اپنی نیکیاں گناتا ہے اور پھر وہ تکلیفیں بیان کرتا ہے جو ان کے بدلے میں خدا نے اس پر ڈالیں، اور پھر کہتا ہے کہ خدا کے پاس اگر کوئی جواب ہے تو وہ مجھے بتائے کہ یہ سلوک میرے ساتھ کس قصور کی پاداش میں کیا گیا ہے۔ اس کی یہ زبان درازی اپنے خالق کے مقابلے میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آخر کار اس کے دوست اس کی باتوں کا جواب دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ چپ ہوتے ہیں تو ایک چوتھا آدمی جو ان کی باتیں خاموش سن رہا تھا بیچ میں دخل دیتا ہے اور ایوب کو بےتحاشا اس بات پر ڈانٹتا ہے کہ " اس نے خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھہرایا "۔ اس کی تقریر ختم نہیں ہوتی کہ بیچ میں اللہ میاں خود بول پڑتے ہیں اور پھر ان کے اور ایوب کے درمیان خوب دو بدو بحث ہوتی ہے۔ اس ساری داستان کو پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی ہم کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اس صبر مجسم کا حال اور کلام پڑھ رہے ہیں جس کی تصویر عبادت گزاروں کے لیے سبق بنا کر قرآن نے پیش کی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی حصہ کچھ کہہ رہا ہے، بیچ کا حصہ کچھ، اور آخر میں نتیجہ کچھ اور نکلا آتا ہے۔ تینوں حصوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ ابتدائی حصہ کہتا ہے کہ ایوب ایک نہایت راستباز، خدا ترس اور نیک شخص تھا، اور اس کے ساتھ اتنا دولت مند کہ " اہل مشرق میں وہ سب سے بڑا آدمی تھا "۔ ایک روز خدا کے ہاں اس کے (یعنی خود اللہ میاں کے) بیٹے حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ شیطان بھی آیا۔ خدا نے اس محفل میں اپنے بندے ایوب پر فخر کا اظہار کیا۔ شیطان نے کہا آپ نے جو کچھ اسے دے رکھا ہے اس کے بعد وہ شکر نہ کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ ذرا اس کی نعمت چھین کر دیکھیے، وہ آپ کے منہ پر آپ کی " تکفیر " نہ کرے تو میرا نام شیطان نہیں۔ خدا نے کہا، اچھا، اس کا سب کچھ تیرے اختیار میں دیا جاتا ہے۔ البتہ اس کی ذات کو کوئی نقصان نہ پہنچایئو۔ شیطان نے جا کر ایوب کے تمام مال و دولت کا اور اس کے پورے خاندان کا صفایا کردیا اور ایوب ہر چیز سے محروم ہو کر بالکل اکیلا رہ گیا۔ مگر ایوب کی آنکھ پر میل نہ آیا۔ اس نے خدا کو سجدہ کیا اور کہا " ننگا ہی میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو " پھر ایک دن ویسی ہی محفل اللہ میاں کے ہاں جمی۔ ان کے بیٹے بھی آئے اور شیطان بھی حاضر ہوا۔ اللہ میاں نے شیطان کو جتایا کہ دیکھ لے، ایوب کیسا راستباز آدمی ثابت ہوا۔ شیطان نے کہا، جناب، ذرا اس کے جسم پر مصیبت ڈال کر دیکھیے۔ وہ آپ کے منہ پر آپ کی " تکفیر " کرے گا۔ اللہ میاں نے فرمایا، اچھا، جا، اس کو تیرے اختیار میں دیا گیا، بس اس کی جان محفوظ رہے۔ چناچہ شیطان واپس ہوا اور آ کر اس نے " ایوب کو تلوے سے چاند تک درد ناک پھوڑوں سے دکھ دیا "۔ اس کی بیوی نے اس سے کہا " کیا تو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا ؟ خدا کی تکفیر کر اور مر جا " اس نے جواب دیا " تو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دکھ نہ پائیں "۔ یہ ہے سِفْرِ ایوب کے پہلے اور دوسرے باب کا خلاصہ۔ لیکن اس کے تیسرے باب سے ایک دوسرا ہی مضمون شروع ہوتا ہے جو بیالیسویں باب تک ایوب کی بےصبری اور خدا کے خلاف شکایات و الزامات کی ایک مسلسل داستان ہے اور اس سے پوری طرح یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ایوب کے بارے میں خدا کا اندازہ غلط اور شیطان کا اندازہ صحیح تھا۔ پھر بیالیسویں باب میں خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ میاں سے خوب دو بدو بحث کرلینے کے بعد، صبر و شکر اور توکل کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ میاں کی ڈانٹ کھا کر، ایوب ان سے معافی مانگ لیتا ہے اور وہ اسے قبول کر کے اس کی تکلیفیں اور کردیتے ہیں اور جتنا کچھ پہلے اس کے پاس تھا اس سے دوچند دے دیتے ہیں۔ اس آخری حصے کو پڑھتے وقت آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایوب اور اللہ میاں دونوں شیطان کے چیلنج کے مقابلے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں، اور پھر محض اپنی بات رکھنے کے لیے اللہ میاں نے ڈانٹ ڈپٹ کر اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا ہے، اور اس کے معافی مانگتے ہی اسے قبول کرلیا ہے تاکہ شیطان کے سامنے ان کی ہیٹی نہ ہو۔ یہ کتاب خود اپنے منہ سے بول رہی ہے کہ یہ نہ خدا کا کلام ہے نہ خود حضرت ایوب کا۔ بلکہ یہ حضرت ایوب کے زمانے کا بھی نہیں ہے۔ ان کے صدیوں بعد کسی شخص نے قصہ ایوب کو بنیاد بنا کر " یوسف زلیخا " کی طرح ایک داستان لکھی ہے اور اس میں ایوب، الیفز تیمانی، سوخی بلدو، نعماتی ضوفر، براکیل بوزی کا بیٹا الیہو، چند کیرکٹر ہیں جن کی زبان سے نظام کائنات کے متعلق دراصل وہ خود اپنا فلسفہ بیان کرتا ہے۔ اس کی شاعری اور اس کے زور بیان کی جس قدر جی چاہے داد دے لیجیے، مگر کتب مقدسہ کے مجموعے میں ایک صحیفہ آسمانی کی حیثیت سے اس کو جگہ دینے کے کوئی معنی نہیں۔ ایوب ؑ کی سیرت سے اس کا بس اتنا ہی تعلق ہے جتنا " یوسف زلیخا " کا تعلق سیرت یوسفی سے ہے، بلکہ شاید اتنا بھی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کے ابتدائی اور آخری حصے میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان میں صحیح تاریخ کا ایک عنصر پایا جاتا ہے، اور وہ شاعر نے یا تو زبانی روایات سے لیا ہوگا جو اس کے زمانے میں مشہور ہوں گی، یا پھر کسی صحیفے سے اخذ کیا ہوگا جو اب نا پید ہے۔
Top