Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ : اور ذَا النُّوْنِ : ذوالنون (مچھلی والا) اِذْ : جب ذَّهَبَ : چلا وہ مُغَاضِبًا : غصہ میں بھر کر فَظَنَّ : پس گمان کیا اس نے اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ : کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے عَلَيْهِ : اس پر فَنَادٰي : تو اس نے پکارا فِي الظُّلُمٰتِ : اندھیروں میں اَنْ لَّآ : کہ نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنْتَ : تیرے سوا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے اِنِّىْ : بیشک میں كُنْتُ : میں تھا مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا۔ 82 یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا 83 اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ 84 آخر کو اُس نے تاریکیوں میں سے پکارا”85 نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قُصور کیا۔“
سورة الْاَنْبِیَآء 82 مراد ہیں حضرت یونس ؑ۔ کہیں ان کا نام لیا گیا ہے اور کہیں " ذوالنون " اور " صاحب الحوت " یعنی " مچھلی والے " کے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ مچھلی والا انہیں اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے یا بیچتے تھے، بلکہ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا، جیسا کہ سورة صافات آیت 142 میں بیان ہوا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، یونس، حواشی 98 تا 100۔ الصٰفّٰت، حوشی 77 تا 85۔ سورة الْاَنْبِیَآء 83 یعنی وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے قبل اس کے کہ خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم آتا اور ان کے لیے اپنی ڈیوٹی چھوڑنا جائز ہوتا۔ سورة الْاَنْبِیَآء 84 انہوں نے خیال کیا کہ اس قوم پر تو عذاب آنے والا ہے، اب مجھے کہیں چل کر پناہ لینی چاہیے تاکہ خود بھی عذاب میں نہ گھر جاؤں۔ یہ بات بجائے خود تو قابل گرفت نہ تھی مگر پیغمبر کا اذن الہٰی کے بغیر ڈیوٹی سے ہٹ جانا قابل گرفت تھا۔ سورة الْاَنْبِیَآء 85 یعنی مچھلی کے پیٹ میں سے جو خود تاریک تھا، اور اوپر سے سمندر کی تاریکیاں مزید۔
Top