Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 90
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ١٘ وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا١ؕ وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ
فَاسْتَجَبْنَا : پھر ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی وَوَهَبْنَا : اور ہم نے عطا کیا لَهٗ : اسے يَحْيٰى : یحییٰ وَاَصْلَحْنَا : اور ہم نے درست کردیا لَهٗ : اس کے لیے زَوْجَهٗ : اس کی بیوی اِنَّهُمْ : بیشک وہ سب كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ : وہ جلدی کرتے تھے فِي : میں الْخَيْرٰتِ : نیک کام (جمع) وَ : اور يَدْعُوْنَنَا : وہ ہمیں پکارتے تھے رَغَبًا : امید وَّرَهَبًا : اور خوف وَكَانُوْا : اور وہ تھے لَنَا : ہمارے لیے (سامنے) خٰشِعِيْنَ : عاجزی کرنیوالے
پس ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا۔ 86 یہ  لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دُھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جُھکے ہوئے تھے۔ 87
سورة الْاَنْبِیَآء 86 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران آیات 37 تا 41 مع حواشی۔ جلد سوم، مریم، آیات 2 تا 15 مع حواشی۔ بیوی کو درست کردینے سے مراد ان کا بانجھ پن دور کردینا اور سن رسیدگی کے باوجود حمل کے قابل بنادینا ہے۔ " بہترین وارث تو تو ہی ہے "، یعنی تو اولاد نہ بھی دے تو غم نہیں، تیری ذات پاک وارث ہونے کے لیے کافی ہے۔ سورة الْاَنْبِیَآء 87 اس سیاق وسباق میں انبیاء کا ذکر جس مقصد کے لیے کیا گیا ہے اسے پھر ذہن میں تازہ کر لیجیے حضرت زکریا کے واقعے کا ذکر کرنے سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود کہ یہ سارے نبی محض بندے اور انسان تھے، الوہیت کا ان میں شائبہ تک نہ تھا۔ دوسروں کو اولاد بخشنے والے نہ تھے بلکہ خود اللہ کے آگے اولاد کے لیے ہاتھ پھیلانے والے تھے۔ حضرت یونس کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ ایک نبی اولو العزم ہونے کے باوجود جب ان سے قصور سرزد ہوا تو انہیں پکڑ لیا گیا۔ اور جب وہ اپنے رب کے آگے جھک گئے تو ان پر فضل بھی ایسا کیا گیا کہ مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکال لائے گئے۔ حضرت ایوب کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ نبی کا مبتلائے مصیبت ہونا کوئی نرالی بات نہیں ہے، اور نبی بھی جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو خدا ہی کے آگے شفا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ وہ دوسروں کو شفا دینے والا نہیں، خدا سے شفا مانگنے والا ہوتا ہے۔ پھر ان سب باتوں کے ساتھ ایک طرف یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ یہ سارے انبیاء توحید کے قائل تھے، اور اپنی حاجات ایک خدا کے سوا کسی کے سامنے نہ لے جاتے تھے، اور دوسری طرف یہ بھی جتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ غیر معمولی طور پر اپنے نبیوں کی مدد کرتا رہا ہے، آغاز میں خواہ کیسی ہی آزمائشوں سے ان کو سابقہ پیش آیا ہو مگر آخر کار ان کی دعائیں معجزانہ شان کے ساتھ پوری ہوئی ہیں۔
Top