Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 91
وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَالَّتِيْٓ : اور عورت جو اَحْصَنَتْ : اس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرمگاہ (عفت کی) فَنَفَخْنَا : پھر ہم نے پھونک دی فِيْهَا : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَجَعَلْنٰهَا : اور ہم نے اسے بنایا وَابْنَهَآ : اور اس کا بیٹا اٰيَةً : نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی۔ 88 ہم نے اُس کے اندر اپنی رُوح سے پھُونکا 89 اور اُسے اور اُس کے بیٹے کو دُنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا۔ 90
سورة الْاَنْبِیَآء 88 مراد ہیں حضرت مریم علیہا السلام۔ سورة الْاَنْبِیَآء 89 حضرت آدمی ؑ کے متعلق بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَراً مِّنْ طِیْنٍ ہ فَاِذَا سَوَّیْتْہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہ سَاجِدِیْنَ (ص۔ آیات 71۔ 72) " میں مٹی سے ایک بشر بنا رہا ہوں، پس (اے فرشتو) جب میں اسے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا "۔ اور یہی بات حضرت عیسیٰ کے متعلق مختلف مقامات پر فرمائی گئی ہے۔ سورة نساء میں فرمایا رَسُوْلُ اللہِ وَ کَلِمَتُہ اَلْقٰھَا اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحً مِّنْہُ ، (آیت 171) " اللہ کا رسول اور اس کا فرمان جو مریم کی طرف القا کیا گیا اور اس کی طرف سے ایک روح "۔ اور سورة تحریم میں ارشاد ہوا وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا (آیت 12) اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی پس پھونک دیا ہم نے اس میں اپنی روح سے "۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کی پیدائش اور حضرت آدم کی پیدائش کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیتا ہے، چنانچہسورۃ آل عمران میں فرمایا اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ، خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کَنْ فَیَکُوْنُ (آیت 59) "۔ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے جس کو اللہ نے مٹی سے بنایا پھر فرمایا " ہوجا " اور وہ ہوجاتا ہے "۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معمولی طریقہ تخلیق کے بجائے جب اللہ تعالیٰ کسی کو براہ راست اپنے حکم سے وجود میں لا کر زندگی بخشتا ہے تو اس کو " اپنی روح سے پھونکنے " کے الفاظ سے تعبیر فرماتا ہے۔ اس روح کی نسبت اللہ کی طرف غالباً اس وجہ سے کی گئی ہے کہ اس کا پھونکا جانا معجزے کی غیر معمولی شان رکھتا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء، حواشی 212۔ 213۔ سورة الْاَنْبِیَآء 90 یعنی یہ دونوں ماں بیٹے خدا یا خدائی میں شریک نہ تھے بلکہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ " نشانی " وہ کس معنی میں تھے، اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة مریم، حاشیہ 21۔ اور سورة المومنون، حاشیہ 43۔
Top