Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 11
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ اِ۟طْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ اِ۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ۫ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّعْبُدُ : بندگی کرتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر حَرْفٍ : ایک کنارہ فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَهٗ : اسے پہنچ گئی خَيْرُ : بھلائی ۨ اطْمَاَنَّ : تو اطمینان پالیا بِهٖ : اس سے وَاِنْ : اور اگر اَصَابَتْهُ : اسے پہنچی فِتْنَةُ : کوئی آزمائش ۨ انْقَلَبَ : تو پلٹ گیا عَلٰي : پر۔ بل وَجْهِهٖ : اپنا منہ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا : دنا کا فساد وَالْاٰخِرَةَ : اور آخرت ذٰلِكَ : یہ ہے هُوَ الْخُسْرَانُ : وہ گھاٹا الْمُبِيْنُ : کھلا
اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے، 15 اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آگئی تو اُلٹا پھر گیا۔ 16 اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔ یہ ہے صریح خسارہ۔ 17
سورة الْحَجّ 15 یعنی دائرہ دین کے وسط میں نہیں بلکہ کنارے پر، یا بالفاظ دیگر کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے۔ جیسے ایک مذبذب آدمی کسی فوج کے کنارے پر کھڑا ہو، اگر فتح ہوتی دیکھے تو ساتھ آ ملے اور شکست ہوتی دیکھے تو چپکے سے سٹک جائے۔ سورة الْحَجّ 16 اس سے مراد ہیں وہ خام سیرت، مضطرب العقیدہ اور بندۂ نفس لوگ جو اسلام قبول تو کرتے ہیں مگر فائدے کی شرط کے ساتھ۔ ان کا ایمان اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ ان کی مرادیں پوری ہوتی رہیں، ہر طرح چین ہی چین نصیب ہو، نہ خدا کا دین ان سے کسی قربانی کا مطالبہ کرے، اور نہ دنیا میں ان کی کوئی خواہش اور آرزو پوری ہونے سے رہ جائے۔ یہ ہو تو خدا سے وہ راضی ہیں اور اس کا دین ان کے نزدیک بہت اچھا ہے۔ لیکن جہاں کوئی آفت آئی، یا خدا کی راہ میں کسی مصیبت اور مشقت اور نقصان سے سابقہ پیش آ گیا، یا کوئی تمنا پوری ہونے سے رہ گئی، پھر ان کو خدا کی خدائی اور رسول کی رسالت اور دین کی حقانیت، کسی چیز پر بھی اطمینان نہیں رہتا۔ پھر وہ ہر اس آستانے پر جھکنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں جہاں سے ان کو فائدے کی امید اور نقصان سے بچ جانے کی توقع ہو۔ سورة الْحَجّ 17 یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جو چند لفظوں میں بیان کردی گئی ہے۔ مذبذب مسلمان کا حال درحقیقت سب سے بدتر ہوتا ہے۔ کافر اپنے رب سے بےنیاز، آخرت سے بےپروا، اور قوانین الہٰی کی پابندیوں سے آزاد ہو کر جب یکسوئی کے ساتھ مادی فائدوں کے پیچھے پڑجاتا ہے تو چاہے وہ اپنی آخرت کھو دے، مگر دنیا تو کچھ نہ کچھ بنا ہی لیتا ہے۔ اور مومن جب پورے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ خدا کے دین کی پیروی کرتا ہے تو اگرچہ دنیا کی کامیابی بھی آخر کار اس کے قدم چوم کر رہتی ہے، تاہم اگر دنیا بالکل ہی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے، آخرت میں بہرحال اس کی فلاح و کامرانی یقینی ہے۔ لیکن یہ مذبذب مسلمان نہ اپنی دنیا ہی بنا سکتا ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے لیے فلاح کا کوئی امکان ہے۔ دنیا کی طرف لپکتا ہے تو کچھ نہ کچھ خدا اور آخرت کے ہونے کا گمان جو اس کے دل و دماغ کے کسی کونے میں رہ گیا ہے، اور کچھ نہ کچھ اخلاقی حدود کا لحاظ جو اسلام سے تعلق نے پیدا کردیا ہے، اس کا دامن کھینچتا رہتا ہے، اور خالص دنیا طلبی کے لیے جس یکسوئی و استقامت کی ضرورت ہے وہ کافر کی طرح اسے بہم نہیں پہنچتی۔ آخرت کا خیال کرتا ہے تو دنیا کے فائدوں کا لالچ اور نقصانات کا خوف، اور خواہشات پر پابندیاں قبول کرنے سے طبیعت کا انکار اس طرف جانے نہیں دیتا بلکہ دنیا پرستی اس کے عقیدے اور عمل کو اتنا کچھ بگاڑ دیتی ہے کہ آخرت میں اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔ اس طرح وہ دنیا بھی کھوتا ہے اور آخرت بھی۔
Top