Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 15
مَنْ كَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ مَا یَغِیْظُ
مَنْ : جو كَانَ يَظُنُّ : گمان کرتا ہے اَنْ : کہ لَّنْ يَّنْصُرَهُ : ہرگز اس کی مدد نہ کریگا اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت فَلْيَمْدُدْ : تو اسے چاہیے کہ تانے بِسَبَبٍ : ایک رسی اِلَى السَّمَآءِ : آسمان کی طرف ثُمَّ : پھر لْيَقْطَعْ : اسے کاٹ ڈالے فَلْيَنْظُرْ : پھر دیکھے هَلْ : کیا يُذْهِبَنَّ : دور کردیتی ہے كَيْدُهٗ : اس کی تدبیر مَا يَغِيْظُ : جو غصہ دلا رہی ہے
جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دُنیا اور آخرت میں اُس کی کوئی مدد نہ کر ے گا اُسے چاہیے کہ ایک رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے، پھر دیکھ لے کہ آیا اُس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کر سکتی ہے جو اس کے ناگوار ہے 22
سورة الْحَجّ 22 اس آیت کی تفسیر میں بکثرت اختلافات ہوئے ہیں۔ مختلف مفسرین کے بیان کردہ مطالب کا خلاصہ یہ ہے 1) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی محمد ﷺ کی) مدد نہ کرے گا وہ چھت سے رسی باندھ کر خود کشی کرلے۔ 2) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی محمد ﷺ کی) مدد نہ کرے گا وہ کسی رسی کے ذریعے آسمان پر جائے اور مدد بند کرانے کی کوشش کر دیکھے۔ 3) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی محمد ﷺ کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر وحی کا سلسلہ منقطع کرنے کی کوشش کر دیکھے۔ 4) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (محمد ﷺ کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر اس کا رزق بند کرانے کی کوشش کر دیکھے۔ 5) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے) مدد نہ کرے گا وہ اپنے گھر کی چھت سے رسی لٹکائے اور خود کشی کرلے۔ 6) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان تک پہنچ کر مدد لانے کی کوشش کر دیکھے۔ ان میں سے پہلے چار مفہومات تو بالکل ہی سیاق وسباق سے غیر متعلق ہیں۔ اور آخری دو مفہوم اگرچہ سیاق وسباق سے قریب تر ہیں، لیکن کلام کے ٹھیک مدعا تک نہیں پہنچتے۔ سلسلہ تقریر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ گمان کرنے والا شخص وہی ہے جو کنارے پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے، جب تک حالات اچھے رہتے ہیں مطمئن رہتا ہے، اور جب کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے، یا کسی حالت سے دوچار ہوتا ہے جو اسے ناگوار ہے، تو خدا سے پھرجاتا ہے اور ایک ایک آستانے پر ماتھا رگڑنے لگتا ہے۔ اس شخص کی یہ کیفیت کیوں ہے ؟ اس لیے کہ وہ قضائے الہٰی پر راضی نہیں ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ قسمت کے بناؤ اور بگاڑ کے سر رشتے اللہ کے سوا کسی اور کے ہاتھ میں بھی ہیں، اور اللہ سے مایوس ہو کر دوسرے آستانوں سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ اس بنا پر فرمایا جا رہا ہے کہ جس شخص کے یہ خیالات ہوں وہ اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لے، حتیٰ کہ اگر آسمان کو پھاڑ کر تھگلی لگا سکتا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لے کہ آیا اس کی کوئی تدبیر تقدیر الہٰی کے کسی ایسے فیصلے کو بدل سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے۔ آسمان پر پہنچنے اور شگاف دینے سے مراد ہے وہ بڑی سے بڑی کوشش جس کا انسان تصور کرسکتا ہو۔ ان الفاظ کا کوئی لفظی مفہوم مراد نہیں ہے۔
Top