Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 28
لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ٘
لِّيَشْهَدُوْا : تاکہ وہ آموجود ہوں مَنَافِعَ : فائدوں کی جگہ لَهُمْ : اپنے وَيَذْكُرُوا : وہ یاد کریں (لیں) اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام فِيْٓ : میں اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ : جانے پہچانے (مقررہ) دن عَلٰي : پر مَا : جو رَزَقَهُمْ : ہم نے انہیں دیا مِّنْ : سے بَهِيْمَةِ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِنْهَا : اس سے وَاَطْعِمُوا : اور کھلاؤ الْبَآئِسَ : بدحال الْفَقِيْرَ : محتاج
تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں، 48 اور چند مقرر دنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انھیں بخشے ہیں، 49 خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں، 50
سورة الْحَجّ 48 اس سے مراد صرف دینی فائدے ہی نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے بھی ہیں۔ یہ اسی خانہ کعبہ اور اس کے حج کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ سے لے کر نبی ﷺ کے زمانے تک ڈھائی ہزار برس کی مدت میں عربوں کو ایک مرکز وحدت حاصل رہا جس نے ان کی عربیت کو قبائلیت میں بالکل گم ہوجانے سے بچائے رکھا۔ اس کے مرکز سے وابستہ ہونے اور حج کے لیے ہر سال ملک کے تمام حصوں سے آتے رہنے کی بدولت ان کی زبان ایک رہی، ان کی تہذیب ایک رہی، ان کے اندر عرب ہونے کا احساس باقی رہا، اور ان کو خیالات، معلومات اور تمدنی طریقوں کی اشاعت کے مواقع ملتے رہے۔ پھر یہ بھی اسی حج کی برکت تھی کہ عرب کی اس عام بدامنی میں کم از کم چار مہینے ایسے امن کے میسر آجاتے تھے جن میں ملک کے ہر حصے کا آدمی سفر کرسکتا تھا اور تجارتی قافلے بھی بخیریت گزر سکتے تھے۔ اس لیے عرب کی معاشی زندگی کے لیے بھی حج ایک رحمت تھا۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، آل عمران، حواشی، 80۔ 81۔ المائدہ، حاشیہ 113۔ اسلام کے بعد حج کے دینی فائدوں کے ساتھ اس کے دنیوی فائدے بھی کئی گنے زیادہ ہوگئے۔ پہلے وہ صرف عرب کے لیے رحمت تھا۔ اب وہ ساری دنیا کے اہل توحید کے لیے رحمت ہوگیا۔ سورة الْحَجّ 49 جانوروں سے مراد مویشی جانور ہیں، یعنی اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری، جیسا کہ سورة انعام 142۔ 144 میں بصراحت بیان ہوا ہے۔ ان پر اللہ کا نام لینے سے مراد اللہ کے نام پر اور اس کا نام لے کر انہیں ذبح کرنا ہے، جیسا کہ بعد کا فقرہ خود بتارہا ہے۔ قرآن مجید میں قربانی کے لیے بالعموم " جانور پر اللہ کا نام لینے " کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے، اور ہر جگہ اس سے مراد اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کرنا ہی ہے۔ اس طرح گویا اس حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ کا نام لیے بغیر، یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور کو ذبح کرنا کفار و مشرکین کا طریقہ ہے۔ مسلمان جب کبھی جانور کو ذبح کرے گا اللہ کا نام لے کر کرے گا، اور جب کبھی قربانی کرے گا اللہ کے لیے کرے گا۔ ایام معلومات (چند مقرر دنوں) سے مراد کون سے دن ہیں ؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ ابن عباس ؓ ، حسن بصری، ابراہیم نخعی، قتادہ اور متعدد دوسرے صحابہ وتابعین سے یہ قول منقول ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یوم النحر (یعنی، 10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔ اس کی تائید میں ابن عباس ؓ ، ابن عمر ؓ، ابراہیم نخعی، حسن اور عطاء کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں، اور امام شافعی ؒ و احمد ؒ سے بھی ایک ایک قول اس کے حق میں منقول ہوا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین دن ہیں، یوم النحر اور دو دن اس کے بعد۔ اس کی تائید میں حضرات عمر، علی، ابن عمر، ابن عباس، انس بن مالک، ابوہریرہ، سعید بن مسیّت اور سعید بن حبیر ؓ کے اقوال منقول ہوئے ہیں۔ فقہاء میں سے سفیان ثوری، امام مالک، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ نے یہی قول اختیار کیا ہے اور مذہب حنفی و مالکی میں اسی پر فتویٰ ہے۔ باقی کچھ شاذ اقوال بھی ہیں، مثلاً کسی نے یکم محرم تک قربانی کے ایام کو دراز کیا ہے، کسی نے صرف یوم النحر تک اسے محدود کردیا ہے، اور کسی نے یوم النحر کے بعد صرف ایک دن مزید قربانی کا مانا ہے۔ لیکن یہ کمزور اقوال ہیں جن کی دلیل مضبوط نہیں ہے۔ سورة الْحَجّ 50 بعض لوگوں نے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں واجب ہیں، کیونکہ حکم بصیغہ امر دیا گیا ہے۔ دوسرا گروہ اس طرف گیا ہے کہ کھانا مستحب ہے اور کھلانا واجب۔ یہ رائے امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کی ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں مستحب ہیں۔ کھانا اس لیے مستحب ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانا ممنوع سمجھتے تھے، اور کھلانا اس لیے پسندیدہ کہ اس میں غریبوں کی امداد اعانت ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ ؒ کا قول ہے۔ ابن جریر نے حسن بصری، عطاء، مجاہد اور ابراہیم نخعی کے یہ اقوال نقل کیے ہیں کہ فَکُلُوْا مِنْھَا۔ میں صیغۂ امر کے استعمال سے کھانے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ یہ امر ویسا ہی ہے جیسے فرمایا و اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا، " جب تم حالت احرام سے نکل آؤ تو پھر شکار کرو " (المائدہ۔ آیت 2) اور فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ ، " پھر جب نماز ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ " (الجمعہ۔ آیت 10)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام سے نکل کر شکار کرنا اور نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جانا واجب ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ پھر ایسا کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانے کو ممنوع سمجھتے تھے اس لیے فرمایا گیا کہ نہیں، اسے کھاؤ، یعنی اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تنگ دست فقیر کو کھلانے کے متعلق جو فرمایا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غنی کو نہیں کھلایا جاسکتا، دوست، ہمسائے، رشتہ دار، خواہ محتاج نہ ہوں، پھر بھی انہیں قربانی کے گوشت میں سے دینا جائز ہے۔ یہ بات صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے۔ عَلْقمہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے میرے ہاتھ قربانی کے جانور بھیجے اور ہدایت فرمائی کہ یوم النحر کو انہیں ذبح کرنا، خود بھی کھانا، مساکین کو بھی دینا، اور میرے بھائی کے گھر بھی بھیجنا۔ ابن عمر کا بھی یہی قول ہے کہ ایک حصہ کھاؤ، ایک حصہ ہمسایوں کو دو ، اور ایک حصہ مساکین میں تقسیم کرو۔
Top