Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 30
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعطیم کرے حُرُمٰتِ اللّٰهِ : شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) فَهُوَ : پس وہ خَيْرٌ : بہتر لَّهٗ : اس کے لیے عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کے رب کے نزدیک وَاُحِلَّتْ : اور حلال قرار دئیے گئے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَنْعَامُ : مویشی اِلَّا : سوا مَا يُتْلٰى : جو پڑھ دئیے گئے عَلَيْكُمْ : تم پر۔ تم کو فَاجْتَنِبُوا : پس تم بچو الرِّجْسَ : گندگی مِنَ : سے الْاَوْثَانِ : بت (جمع) وَاجْتَنِبُوْا : اور بچو قَوْلَ : بات الزُّوْرِ : جھوٹی
یہ تھا (تعمیرِ کعبہ کا مقصد)اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حُرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے ربّ کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے۔ 54 اور تمہارے لیے مویشی جانور حلال کیے گئے، 55 ماسوا اُن چیزوں کے جو تمہیں بتائی جاچکی ہیں۔ 56 پس بُتوں کی گندگی سے بچو، 57 جھُوٹی باتوں سے پرہیز کرو، 58
سورة الْحَجّ 54 بظاہر یہ ایک عام نصیحت ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی تمام حرمتوں کا احترام کرنے کے لیے فرمائی گئی ہے، مگر اس سلسلہ کلام میں وہ حرمتیں بدرجہ اولیٰ مراد ہیں جو مسجد حرام اور حج اور عمرے اور حرم مکہ کے باب میں قائم کی گئی ہیں۔ نیز اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قریش نے حرم سے مسلمانوں کو نکال کر اور ان پر حج کا راستہ بند کر کے اور مناسک حج میں مشرکانہ و جاہلانہ رسمیں شامل کر کے اور بیت اللہ کو شرک کی گندگی سے ملوث کر کے ان بہت سی حرمتوں کی ہتک کر ڈالی ہے جو ابراہیم ؑ کے وقت سے قائم کردی گئی تھیں۔ سورة الْحَجّ 55 اس موقع پر مویشی جانوروں کی حلت کا ذکر کرنے سے مقصود دو غلط فہمیوں کو رفع کرنا ہے۔ اول یہ کہ قریش اور مشرکین عرب بحیرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو بھی اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں شمار کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ اس کی قائم کردہ حرمتیں نہیں ہیں، بلکہ اس نے تمام مویشی جانور حلال کیے ہیں۔ دوم یہ کہ حالت احرام میں جس طرح شکار حرام ہے اس طرح کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مویشی جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کو کھانا بھی حرام ہے۔ اس لیے بتایا گیا کہ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں سے نہیں ہے۔ سورة الْحَجّ 56 اشارہ ہے اس حکم کی طرف جو سورة انعام اور سورة نحل میں ارشاد ہوا ہے کہ (اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا جائے "۔ (الانعام، آیت 145۔ النحل، آیت 115)۔ سورة الْحَجّ 57 یعنی بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے غلاظت سے آدمی گھن کھاتا ہے اور دور ہٹتا ہے۔ گویا کہ وہ نجاست سے بھرے ہوئے ہیں اور قریب جاتے ہی آدمی ان سے نجس اور پلید ہوجائے گا۔ سورة الْحَجّ 58 اگرچہ الفاظ عام ہیں، اور ان سے ہر جھوٹ، بہتان، اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے، مگر اس سلسلہ کلام میں خاص طور پر اشارہ ان باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفر و شرک کی بنیاد ہے۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا اور اس کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی برہ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکین عرب بحیرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے، جیسا کہ سورة نحل میں فرمایا وَلَا تَقُوْا لِمَا تصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ، " اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو " آیت 116۔ اس کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹی شہادت بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں نبی ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا عُدِلت شھادۃ الزور بالاشراک باللہِ ، " جھوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر رکھی گئی ہے "، اور پھر آپ نے ثبوت میں یہی آیت پیش فرمائی۔ اسلامی قانون میں یہ جرم مستلزم تعزیر ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص عدالت میں جھوٹا گواہ ثابت ہوجائے اس کی تشہیر کی جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے۔ یہی حضرت عمر ؓ کا قول اور فعل بھی ہے۔ مَکْحول کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا یُضْرب ظھرہ و یحلق رأسہ و یسخم وجھہ ویطال جلسہ، ’‘ اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں، اس کا سر مونڈا جائے اور منہ کالا کیا جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے "۔ عبداللہ بن عمر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر کی عدالت میں ایک شخص کی گواہی جھوٹی ثابت ہوگئی تو انہوں نے اس کو ایک دن بر سر عام کھڑا رکھ کر اعلان کرایا کہ یہ فلاں بن فلاں جھوٹا گواہ ہے، اسے پہچان لو، پھر اس کو قید کردیا۔ موجودہ زمانے میں ایسے شخص کا نام اخبارات میں نکال دینا تدبیر کا مقصد پورا کرسکتا ہے۔
Top