Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 54
وَّ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَیُؤْمِنُوْا بِهٖ فَتُخْبِتَ لَهٗ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَّلِيَعْلَمَ : اور تاکہ جان لیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ : علم دیا گیا اَنَّهُ : کہ یہ الْحَقُّ : حق مِنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب سے فَيُؤْمِنُوْا : تو وہ ایمان لے آئیں بِهٖ : اس پر فَتُخْبِتَ : تو جھک جائیں لَهٗ : اس کے لیے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَهَادِ : ہدایت دینے والا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ لوگ جو ایمان لائے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور علم سے بہرہ مند لوگ جان لیں کہ یہ حق ہے تیرے ربّ کی طرف سے اور وہ اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دل اس کے آگے جُھک جائیں، یقیناً اللہ ایمان لانے والوں کو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ 101
سورة الْحَجّ 101 یعنی شیطان کی ان فتنہ پردازیوں کو اللہ نے لوگوں کی آزمائش، اور کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے کا ایک ذریعہ بنادیا ہے۔ بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ انہی چیزوں سے غلط نتیجے اخذ کرتے ہیں اور یہ ان کے لیے گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ صاف ذہن کے لوگوں کو یہی باتیں نبی اور کتاب اللہ کے بر حق ہونے کا یقین دلاتی ہیں اور وہ محسوس کرلیتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی شرارتیں ہیں اور یہ چیز انہیں مطمئن کردیتی ہے کہ یہ دعوت یقیناً خیر اور راستی کی دعوت ہے، ورنہ شیطان اس پر اس قدر نہ تلملاتا۔ سلسلہ کلام کو نظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو ان آیات کا مطلب صاف سمجھ میں آجاتا ہے۔ نبی ﷺ کی دعوت اس وقت جس مرحلے میں تھی اس کو دیکھ کر تمام ظاہر بیں نگاہیں یہ دھوکا کھا رہی تھیں کہ آپ اپنے مقصد میں ناکام ہوگئے ہیں۔ دیکھنے والے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ تو یہ تھا کہ ایک شخص، جس کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ اس کی قوم اس پر ایمان لائے، وہ تیرہ برس معاذ اللہ سر مارنے کے بعد آخر کار اپنے مٹھی بھر پیروؤں کو لے کر وطن سے نکل جانے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اس صورت حال میں جب لوگ آپ کے اس بیان کو دیکھتے تھے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس کی تائید میرے ساتھ ہے، اور قرآن کے ان اعلانات کو دیکھتے تھے کہ نبی کو جھٹلا دینے والی قوم پر عذاب آجاتا ہے، تو انہیں آپ کی اور قرآن کی صداقت مشتبہ نظر آنے لگتی تھی، اور آپ کے مخالفین اس پر بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے کہ کہاں گئی وہ خدا کی تائید، اور کیا ہوئیں وہ عذاب کی وعیدیں، اب کیوں نہیں آجاتا وہ عذاب جس کے ہم کو ڈراوے دیے جاتے تھے۔ انہی باتوں کا جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں۔ پہلے کی آیتوں میں جواب کا رخ کفار کی طرف تھا اور ان آیتوں میں اس کا رخ ان لوگوں کی طرف ہے جو کفار کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے۔ پورے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ " کسی قوم کا اپنے پیغمبر کی تکذیب کرنا انسانی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ پھر اس تکذیب کا جو انجام ہوا وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے تباہ شدہ قوموں کے آثار قدیمہ کی صورت میں موجود ہے۔ سبق لینا چاہو تو اس سے لے سکتے ہو۔ رہی یہ بات کہ تکذیب کرتے ہی وہ عذاب کیوں نہ آگیا جس کی وعیدیں قرآن کی بکثرت آیتوں میں کی گئی تھیں، تو آخر یہ کب کہا گیا تھا کہ ہر تکذیب فوراً ہی عذاب لے آتی ہے۔ اور نبی نے یہ کب کہا تھا کہ عذاب لانا اس کا اپنا کام ہے۔ اس کا فیصلہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ جلد باز نہیں ہے۔ پہلے بھی وہ عذاب لانے سے پہلے قوموں کو مہلت دیتا رہا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔ مہلت کا یہ زمانہ اگر صدیوں تک بھی دراز ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ سب وعیدیں خالی خولی دھمکیاں ہی تھیں جو پیغمبر کے جھٹلانے والوں پر عذاب آنے کے متعلق کی گئی تھیں۔ پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں ہے کہ پیغمبر کی آرزوؤں اور تمناؤں کے بر آنے میں رکاوٹیں واقع ہوں، یا اس کی دعوت کے خلاف جھوٹے الزامات اور طرح طرح کے شبہات و اعتراضات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو۔ یہ سب کچھ بھی تمام پچھلے پیغمبروں کی دعوتوں کے مقابلے میں ہوچکا ہے۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ ان شیطانی فتنوں کا استیصال کردیتا ہے۔ رکاوٹوں کے باوجود دعوت حق فروغ پاتی ہے، اور محکم آیات کے ذریعے شبہات کے رخنے بھر دیے جاتے ہیں۔ شیطان اور اس کے چیلے ان تدبیروں سے اللہ کی آیات کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں، مگر اللہ انہی کو انسانوں کے درمیان کھوٹے اور کھرے کی تمیز کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اس ذریعہ سے کھرے آدمی دعوت حق کی طرف کھچ آتے ہیں اور کھوٹے لوگ چھٹ کر الگ ہوجاتے ہیں "۔ یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مفہوم جو سیاق وسباق کی روشنی میں ان آیات سے حاصل ہوا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ایک روایت نے ان کی تفسیر میں اتنا بڑا گھپلا ڈال دیا کہ نہ صرف ان کے معنی کچھ سے کچھ ہوگئے، بلکہ سارے دین کی بنیاد ہی خطرے میں پڑگئی۔ ہم اس کا ذکر یہاں اس لیے کرتے ہیں کہ قرآن کے طالب علم فہم قرآن میں روایات سے مدد لینے کے صحیح اور غلط طریقوں کا فرق اچھی سمجھ سکیں اور انہیں معلوم ہوجائے کہ روایت پرستی میں ناروا غلو کیا نتائج پیدا کرتا ہے، اور قرآن کی غلط تفسیر کرنے والی روایات پر تنقید کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ قصہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی ﷺ کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش قرآن میں کوئی ایسی بات نازل ہوجائے جس سے اسلام کے خلاف کفار قریش کی نفرت دور ہو اور وہ کچھ قریب آجائیں۔ یا کم از کم ان کے دین کے خلاف ایسی سخت تنقید نہ ہو جو انہیں بھڑکا دینے والی ہو۔ یہ تمنا آپ کے دل ہی میں تھی کہ ایک روز قریش کی ایک بڑی مجلس میں بیٹھے ہوئے آپ پر سورة نجم نازل ہوئی اور آپ نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ جب آپ اَفَرَاَیْتُمْ اللَّاتَ وَ الْعُزّٰی ہ وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃ الْاُخْریٰ ، پر پہنچے تو یکایک آپکی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے تلک الغرانقۃ العلیہ وان شفاعتھن لترجیٰ (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے)۔ اس کے بعد آگے پھر آپ سورة نجم کی آیات پڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ جب اختتام سورة پر آپ نے سجدہ کیا تو مشرک اور مسلمان سب سجدے میں گر گئے۔ کفار قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمد ﷺ سے کیا اختلاف باقی رہ گیا۔ ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خالق و رازق اللہ ہی ہے، البتہ ہمارے یہ معبود اس کے حضور میں ہمارے شفیع ہیں۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا یہ آپ نے کیا کیا ؟ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا۔ اس پر آپ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورة بنی اسرائیل، رکوع 8 میں ہے کہ وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہ ........... ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْراً ، یہ چیز برابر نبی ﷺ کو رنج و غم میں مبتلا کیے رہی یہاں تک کہ سورة حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی کہ تم سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ ادھر یہ واقعہ کہ قرآن سن کر آنحضرت کے ساتھ قریش کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا، مہاجرین حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرت ﷺ اور کفار مکہ کے درمیان صلح ہوگئی ہے۔ چناچہ بہت سے مہاجرین مکہ واپس آگئے۔ مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ صلح کی خبر غلط تھی، اسلام اور کفر کی دشمنی جوں کی توں قائم ہے۔ یہ قصہ ابن جریر اور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں، ابن سعد نے طبقات میں، الواحدی نے اسباب النزول میں، موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں، ابن اسحاق نے سیرت میں اور ابن ابی حاتم، ابن النذر، بَذّار، ابن مردویہ اور طبرانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے وہ محمد بن قیس، محمد بن کعب قرظی، عروہ بن زبیر، ابوصالح، ابوالعالیہ، سعید بن جبیر، ضحاک، ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث، تَتَدہ، مجاہد، سُدّی، ابن شہاب زہری، اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہیں (ابن عباس کے سوا ان میں سے کوئی صحابی نہیں ہے)۔ یہ قصے کی تفصیلات میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کردو بہت بڑے اختلافات ہیں۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات نبی ﷺ کی طرف منسوب کیے گئے ہیں وہ قریب قریب ہر روایت میں دوسری روایت سے مختلف ہیں۔ ہم نے ان کا استقصاء کرنے کی کوشش کی تو 15 عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت کی رو سے یہ الفاظ دوران وحی میں شیطان نے آپ پر القا کردیے اور آپ سمجھے کہ یہ بھی جبریل لائے ہیں۔ کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی اس خواہش کے زیر اثر سہواً آپ کی زبان سے نکل گئے۔ کسی میں ہے کہ اس وقت آپ کو اونگھ آگئی تھی اور اس حالت میں یہ الفاظ نکلے۔ کسی کا بیان ہے کہ آپ نے یہ قصداً کہے مگر استفہام انکاری کے طور پر کہے۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپ کی آواز ملا کر یہ الفاظ کہہ دیے اور سمجھا یہ گیا کہ آپ نے کہے ہیں۔ اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی شخص تھا۔ ابن کثیر، بیہقی، قاضی عیاض، ابن خزیمہ، قاضی ابوبکر ابن العزی، امام رازی، قُطبی، بدر الدین عینی، شو کافی، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ " جتنی سندوں سے یہ روایت ہوا ہے، سب مرسل اور منقطع ہیں، مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا۔ " بیہقی کہتے ہیں کہ " از روئے نقل یہ قصہ ثابت نہیں ہے "۔ ابن خزیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ " یہ زنادقہ کا گھڑا ہوا ہے "۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ " اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ یہ کسی صحیح متصل بےعیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہوا ہے "۔ امام رازی، قاضی ابوبکر جصاص جیسے نامور فقیہ اور زمخشری جیسے عقلیت پسند مفسر، اور ابن جریر جیسے امام تفسیر و تاریخ و فقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو آیت زیر بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر کا محدثانہ استدلال یہ ہے کہ " سعید بن جبیر کے طریق کے سوا باقی جن طریقوں سے یہ روایت آتی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقہ سے متصلاً بسند صحیح بھی نقل ہوا ہے جسے بذار نے نکالا ہے (مراد ہے یوسف بن حماد عن اَمَیّہ بن خالد عن شُعْبہ عن ابی بشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس) اور دو طریقوں سے یہ اگرچہ مرسل ہے مگر اس کے راوی صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں۔ یہ دونوں روایتیں طبری نے نقل کی ہیں۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب، دوسری بطریق معمر بن سلیمان و حماد بن سلمہ عن داؤد بن ابی ہند عن ابی العالیہ "۔ جہاں تک موافقین کا تعلق ہے، وہ تو اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں۔ لیکن مخالفین نے بھی بالعموم اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ ایک گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس کی سند اس کے نزدیک قوی نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصے کو مان لیتے۔ دوسرا گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوا جاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق شک پیدا ہوجاتا ہے کہ نہ معلوم اور کہاں کہاں شیطانی اغوا یا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہوگیا ہو۔ حالانکہ اس نوعیت کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کرسکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں، مگر دوسرے لوگ جو پہلے ہی شکوک میں مبتلا ہیں، یا جو اب تحقیق کر کے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں، ان کے دل میں تو یہ جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا کہ جن جن چیزوں سے یہ دین مشتبہ قرار پاتا ہو انہیں رد کردیں۔ وہ گو کہیں گے کہ جب کم از کم ایک نامور صحابی اور بکثرت تابعین و تبع تابعین، اور متعدد و معتبر راویان حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہو رہا ہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کردیا جائے کہ ان سے آپ کا دین مشتبہ ہوا جاتا ہے ؟ اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے جب کہ یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کر ہی رہا ہے ؟ اب دیکھنا چاہیے کہ تنقید کا وہ صحیح طریقہ کیا ہے جس سے اگر اس قصے کو پرکھ کر دیکھا جائے تو یہ ناقابل قبول قرار پاتا ہے، چاہے اس کی سند کتنی ہی قوی ہو، یا قوی ہوتی۔ پہلی چیز خود اس کی اندرونی شہادت ہے جو اسے غلط ثابت کرتی ہے۔ قصے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہجرت حبشہ واقع ہوچکی تھی، اور اس واقعے کی خبر پا کر مہاجرین حبشہ میں سے ایک گروہ مکہ واپس آگیا۔ اب ذرا تاریخوں کا فرق ملاحظہ کیجیے ۔۔۔۔ ہجرت حبشہ معتبر تاریخی روایتوں کی رو سے رجب 5 نبوی میں واقع ہوئی، اور مہاجرین حبشہ کا ایک گروہ مصالحت کی غلط خبر سن کر تین مہینے بعد (یعنی اسی سال تقریباً شوال کے مہینے میں) مکہ واپس آگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ لا محالہ 5 نبوی کا ہے۔ ۔۔۔۔ سورة بنی اسرائیل جس کی ایک آیت کے متعلق بیان کیا جارہا ہے کہ وہ نبی ﷺ کے اس فعل پر بطور عتاب نازل ہوئی تھی، معراج کے بعد اتری ہے، اور معراج کا زمانہ معتبر ترین روایات کی رو سے 11 یا 12 نبوی کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس فعل پر پانچ چھ سال جب گزر چکے تب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا، ۔۔۔۔ اور زیر بحث آیت، جیسا کہ اس کا سیاق وسباق صاف بتارہا ہے 1 ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ یعنی عتاب پر بھی جب مزید دو ڈھائی سال گزر لیے تب اعلان کیا گیا کہ یہ آمیزش تو القائے شیطانی سے ہوگئی تھی، اللہ نے اسے منسوخ کردیا ہے۔ کیا کوئی صاحب عقل آدمی باور کرسکتا ہے کہ آمیزش کا فعل آج ہو، عتاب چھ سال بعد، اور آمیزش کی تنسیخ کا اعلان 9 سال بعد ؟ پھر اس قصے میں بیان کیا گیا کہ یہ آمیزش سورة نجم میں ہوئی تھی اور اس طرح ہوئی کہ ابتدا سے آپ اصل سورة کے الفاظ پڑھتے چلے آ رہے تھے، یکایک مَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰ پر پہنچ کر آپ نے بطور خود یا شیطانی اغوا سے یہ فقرہ ملایا، اور آگے پھر سورة نجم کی اصل آیات پڑھتے چلے گئے۔ اس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ کفار مکہ اسے سن کر خوش ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ اب ہمارا اور محمد ﷺ کا اختلاف ختم ہوگیا۔ مگر سورة نجم کے سلسلہ کلام میں اس الحاقی فقرے کو شامل کر کے تو دیکھیے " پھر تم نے کچھ غور بھی کیا ان لات اور عزیٰ پر اور تیسری ایک اور (دیوی) مناۃ پر ؟ یہ بلند پایہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ کیا تمہارے لیے تو ہوں بیٹے اور اس (یعنی اللہ) کے لیے ہوں بیٹیاں ؟ یہ تو بڑی بےانصافی کی تقسیم ہے۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ لوگ محض گمان اور من مانے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں، حالانکہ ان کے رب کی طرف سے صحیح رہنمائی آگئی ہے "۔ دیکھیے، اس عبارت میں خط کشیدہ فقرے نے کیسا صریح تضاد پیدا کردیا ہے۔ ایک سانس میں کہا جاتا ہے کہ واقعی تمہاری یہ دیویاں بلند مرتبہ رکھتی ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ دوسرے ہی سانس میں پلٹ کر ان پر چوٹ کی جاتی ہے کہ بےوقوفو، یہ تم نے خدا کے لیے بیٹیاں کیسی تجویز کر رکھی ہیں ؟ اچھی دھاندلی ہے کہ تمہیں تو ملیں بیٹے اور خدا کے حصے میں آئیں بیٹیاں۔ یہ سب تمہاری من گھڑت ہے جسے خدا کی طرف سے کوئی سند اعتبار حاصل نہیں ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو جانے دیجیے کہ یہ صریح بےتکی باتیں کسی مرد عاقل کی زبان سے نکل بھی سکتی ہیں یا نہیں۔ مان لیجیے کہ شیطان نے غلبہ پا کر یہ الفاظ زبان سے نکلوا دیے۔ مگر کیا قریش کا وہ سارا مجمع جو اسے سن رہا تھا، بالکل ہی پاگل ہوگیا تھا کہ بعد کے فقروں میں ان تعریفی کلمات کی کھلی کھلی تردید سن کر بھی وہ یہی سمجھتا رہا کہ ہماری دیویوں کی واقعی تعریف کی گئی ہے ؟ سورة نجم کے آخر تک کا پورا مضمون اس ایک تعریفی فقرے کے بالکل خلاف ہے۔ کس طرح باور کیا جا سلتا ہے کہ قریش کے لوگ اسے آخر تک سننے کے بعد یہ پکار اٹھے ہونگے کہ چلو آج ہمارا اور محمد ﷺ کا اختلاف ختم ہوگیا ؟ یہ تو ہے اس قصے کی اندرونی شہادت جو اس کے سراسر لغو اور مہمل ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ اس میں تین آیتوں کی جو شان نزول بیان کی جا رہی ہے آیا قرآن کی ترتیب بھی اس کو قبول کرتی ہے ؟ قصے میں بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ آمیزش سورة نجم میں کی گئی تھی، جو 5 نبوی میں نازل ہوئی۔ اس آمیزش پر سورة بنی اسرائیل والی آیت میں عتاب فرمایا گیا، اور پھر اس کی تنسیخ اور واقعہ کی توجیہ سورة حج کی زیر بحث آیت میں کی گئی۔ اب لامحالہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی سورت پیش آئی ہوگی۔ یا تو عتاب اور تنسیخ والی آیتوں کی اس زمانے میں نازل ہوئی ہوں جبکہ آمیزش کا واقعہ پیش آیا، یا پھر عتاب والی آیت سورة بنی اسرائیل کے ساتھ اور تنسیخ والی آیت سورة حج کے ساتھ نازل ہوئی ہو۔ اگر پہلی صورت ہے تو یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ دونوں آیتوں سورة نجم ہی میں نہ شامل کی گئیں بلکہ عتاب والی آیت والی آیت کو چھ سال تک یوں ہی ڈالے رکھا گیا اور سورة بنی اسرائیل جب نازل ہوئی تب کہیں اس میں لا کر چپکا دیا گیا۔ پھر تنسیخ والی آیت مزید دو ڈھائی برس تک پڑی رہی اور سورة حج کے نزول تک اسے کہیں نہ چسپاں کیا گیا۔ کیا قرآن کی ترتیب اسی طرح ہوئی ہے کہ ایک موقع کی نازل شدہ آیتیں الگ الگ بکھری پڑی رہتی تھیں اور برسوں کے بعد کسی کو کسی سورت میں اور کسی کو کسی دوسری سورت میں ٹانک دیا جاتا تھا ؟ لیکن اگر دوسری صورت ہے کہ عتاب والی آیت واقعہ کے 6 سال بعد اور تنسیخ والی آیت آٹھ نو سال بعد نازل ہوئی، تو علاوہ اس بےت کے پن کے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورة بنی اسرائیل اور سورة حج میں ان کے نزول کا موقع کیا ہے۔ یہاں پہنچ کر نقد صحیح کا تیسرا قاعدہ ہمارے سامنے آتا ہے، یعنی یہ کہ کسی آیت کی جو تفسیر بیان کی جا رہی ہو اسے دیکھا جائے کہ آیا قرآن کا سیاق وسباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔ سورة بنی اسرائیل کا آٹھواں رکوع پڑھ کر دیکھیے، اور اس سے پہلے اور بعد کے مضمون پر بھی نگاہ ڈال لیجیے اس سلسلہ کلام میں آخر کیا موقع اس بات کا نظر آتا ہے کہ چھ سال پہلے کے ایک واقعہ پر نبی کو ڈانٹ بتائی جائے (قطع نظر اس سے کہ آیت اِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ میں نبی پر کوئی ڈانٹ ہے بھی یا نہیں، اور آیت کے الفاظ کفار کے فتنے میں نبی کے مبتلا ہوجانے کی تردید کر رہے یا تصدیق)۔ اسی طرح سورة حج آپ کے سامنے موجود ہے۔ آیت زیر بحث سے پہلے کا مضمون بھی پڑھیے اور بعد کا بھی دیکھیے۔ کیا کوئی معقول وجہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سیاق وسباق میں یکایک یہ مضمون کیسے آگیا کہ " اے نبی، 9 سال پہلے قرآن میں آمیزش کر بیٹھنے کی جو حرکت تم سے ہوگئی تھی اس پر گھبراؤ نہیں، پہلے انبیاء سے بھی شیطان یہ حرکتیں کراتا رہا ہے، اور جب کبھی انبیاء اس طرح کا فعل کر جاتے ہیں تو اللہ اس کو منسوخ کر کے اپنی آیات کو پھر پختہ کردیتا ہے۔ " ہم اس سے پہلے بھی بار ہا کہہ چکے ہیں، اور یہاں پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ کوئی روایت، خواہ اس کی سند آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو، ایسی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتی جبکہ اس کا متن اس کے غلط ہونے کی کھلی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ، سیاق وسباق، ترتیب، ہر چیز اسے قبول کرنے سے انکار کر رہی ہو۔ یہ دلائل تو ایک مشکک اور بےلاگ محقق کو بھی مطمئن کردیں گے کہ یہ قصہ قطعی غلط ہے۔ رہا مومن، تو وہ سے ہرگز نہیں مان سکتا جب کہ وہ علانیہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ روایت قرآن کی ایک نہیں بیسیوں آیتوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ مان لینا بہت آسان ہے کہ خود اس روایت کے راویوں کو شیطان نے بہکا دیا، بہ نسبت اس کے کہ وہ یہ مان لے کہ رسول اللہ ﷺ کبھی اپنی خواہش نفس سے قرآن میں ایک لفظ بھی ملا سکتے تھے، یا حضور ﷺ کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال آسکتا تھا کہ توحید کے ساتھ شرک کی کچھ آمیزش کر کے کفار کو راضی کیا جائے، یا آپ اللہ تعالیٰ کے فرامین کے بارے میں کبھی یہ آرزو کرسکتے تھے کہ کاش اللہ میاں ایسی کوئی بات نہ فرما بیٹھیں جس سے کفار ناراض ہوجائیں، یا یہ کہ آپ اسی غلط فہمی میں رہیں کہ یہ بھی جبریل ہی لائے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک بات قرآن کی کھلی کھلی تصریحات کے خلاف ہے اور ان ثابت شدہ عقائد کے خلاف ہے جو ہم قرآن اور محمد ﷺ کے بارے میں رکھتے ہیں۔ خدا کی پناہ اس روایت پرستی سے جو محض سند کا اتصال یا راویوں کی ثقاہت یا طرق روایت کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں بھی تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس شک کو بھی دور کردیا جائے جو راویان حدیث کی اتنی بڑی تعداد کو اس قصے کی روایت میں مبتلا ہوتے دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک شخص سوال کرسکتا ہے کہ اگر اس قصے کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ تو نبی ﷺ اور قرآن پر اتنا بڑا بہتان حدیث کے اتنے راویوں کے ذریعہ سے، جن میں بعض بڑے نامور ثقہ بزرگ ہیں، اشاعت کیسے پا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے اسباب کا سراغ ہم کو خود حدیث ہی کے ذخیرے میں مل جاتا ہے۔ بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور مسند احمد میں اصل واقعہ اس طرح آیا ہے کہ نبی ﷺ نے سورة نجم کی تلاوت فرمائی، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین، مسلم اور مشرک سب، سجدے میں گر گئے۔ واقعہ بس اتنا ہی تھا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ اول تو قرآن کا زور کلام اور انتہائی پر تاثیر انداز بیان، پھر نبی ﷺ کی زبان سے اس کا ایک ملہمانہ شان کے ساتھ ادا ہونا، اس کو سن کر اگر پورے مجمع پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی ہو اور آپ کے ساتھ سارا مجمع سجدے میں گرگیا ہو تو کچھ بعید نہیں ہے۔ یہ تو وہ چیز تھی جس پر قریش کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ البتہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں قریش کے لوگ اپنے اس وقتی تأثر پر کچھ پشیمان سے ہوئے ہوں گے اور ان میں سے کسی نے یا بعض لوگوں نے اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کی ہوگی کہ صاحب، ہمارے کانوں نے تو محمد ﷺ کی زبان سے اپنے معبودوں کی تعریف میں کچھ کلمات سنے تھے اس لیے ہم بھی ان کے ساتھ سجدے میں گر گئے۔ دوسری طرف یہی واقعہ مہاجرین حبشہ تک اس شکل میں پہنچا کہ نبی ﷺ اور قریش کے درمیان صلح ہوگئی ہے، کیونکہ دیکھنے والے نے آپ کو اور مشرکین و مومنین سب کو ایک ساتھ سجدہ کرتے دیکھا تھا۔ یہ افواہ ایسی گرم ہوئی کہ مہاجرین میں سے تقریباً 33 آدمی مکہ میں واپس آگئے۔ ایک صدی کے اندر یہ تینوں باتیں، یعنی قریش کا سجدہ اس سجدے کی یہ توجیہ، اور مہاجرین حبشہ کی واپسی، مل جل کر ایک قصے کی شکل اختیار کر گئیں اور بعض ثقہ لوگ تک اس کی روایت میں مبتلا ہوگئے۔ انسان آخر انسان ہے۔ بڑے سے بڑے نیک اور ذی فہم آدمی سے بھی بسا اوقات لغزش ہوجاتی ہے اور اس کی لغزش عام لوگوں کی لغزش سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ عقیدت میں بےجا غلو رکھنے ولے ان بزرگوں کی صحیح باتوں کے ساتھ ان کی غلط باتوں کو بھی آنکھیں بند کر کے ہضم کر جاتے ہیں۔ اور بد طینت لوگ چھانٹ چھانٹ کر ان کی غلطیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے دلیل بناتے ہیں کہ سب کچھ جو ان کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے، نذر آتش کردینے کے لائق ہے۔
Top