Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 55
وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ یَاْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ
وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ رہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ : میں مِرْيَةٍ : شک مِّنْهُ : اس سے حَتّٰى : یہاں تک تَاْتِيَهُمُ : آئے ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک اَوْ يَاْتِيَهُمْ : یا آجائے ان پر عَذَابُ : عذاب يَوْمٍ عَقِيْمٍ : منحوس دن
انکار کرنے والے تو اس کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ یا تو اُن پر قیامت کی گھڑی اچانک آجائے، یا ایک منحوس دن 102 کا عذاب نازل ہوجائے
سورة الْحَجّ 102 اصل میں لفظ " عَقِیْم " استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ " بانجھ " ہے۔ دن کو بانجھ کہنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسا منحوس دن ہو جس میں کوئی تدبیر کارگر نہ ہو، ہر کوشش الٹی پڑے، اور ہر امید مایوسی میں تبدیل ہوجائے۔ دوسرے یہ کہ وہ ایسا دن ہو جس کے بعد رات دیکھنی نصیب نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں مراد ہے وہ دن جس میں کسی قوم کی بربادی کا فیصلہ ہوجائے۔ مثلاً جس روز قوم نوح پر طوفان آیا، وہ اس کے لیے " بانجھ " دن تھا۔ اسی طرح عاد، ثمود، قوم، لوط، اہل مَدْیَن، اور دوسری سب تباہ شدہ قوموں کے حق میں عذاب الہٰی کے نزول کا دن بانجھ ہی ثابت ہو۔ کیونکہ اس " امروز " کا کوئی چارہ گری ان کے لیے ممکن نہ ہوئی جس سے وہ اپنی قسمت کی بگڑی بنا سکتے۔
Top