Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 76
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ
يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھوں کے درمیان ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَهُمْ : ان کے پیچھے وَ : اور اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف تُرْجَعُ : لوٹناّ (بازگشت) الْاُمُوْرُ : سارے کام
جو کچھ ان کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اُس سے بھی وہ واقف ہے 125 ، اور سارے معاملات اُسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ 126
سورة الْحَجّ 125 یہ فقرہ قرآن مجید میں بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کے لیے آیا کرتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر پچھلے فقرے کے بعد اسے ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ ملائکہ اور انبیاء و صلحاء کو بذات خود حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نہ سہی، اللہ کے ہاں سفارشی سمجھ کر بھی اگر تم پوجتے ہو تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، ہر شخص کے ظاہر اور مخفی حالات وہی جانتا ہے، دنیا کے کھلے اور چھپے مصالح سے بھی وہی واقف ہے، ملائکہ اور انبیاء سمیت کسی مخلوق کو بھی ٹھیک معلوم نہیں ہے کہ کس وقت کیا کرنا مناسب ہے اور کیا مناسب نہیں ہے، لہٰذا اللہ نے اپنی مقرب ترین مخلوق کو بھی یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اس کے اذن کے بغیر جو سفارش چاہیں کر بیٹھیں اور ان کی سفارش قبول ہوجائے۔ سورة الْحَجّ 126 یعنی تدبیر امر بالکل اس کے اختیار میں ہے۔ کائنات کے کسی چھوٹے یا بڑے معاملے کا مرجع کوئی دوسرا نہیں ہے کہ اس کے پاس تم اپنی درخواستیں لے جاؤ۔ ہر معاملہ اسی کے آگے فیصلے کے لیے پیش ہوتا ہے۔ لہٰذا دست طلب بڑھانا ہے تو اس کی طرف بڑھاؤ۔ ان بےاختیار ہستیوں سے کیا مانگتے ہو جو خود اپنی بھی کوئی حاجت آپ پوری کرلینے پر قادر نہیں ہیں۔
Top