Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 77
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩  ۞
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : وہ لوگ جو ایمان لائے ارْكَعُوْا : تم رکوع کرو وَاسْجُدُوْا : اور سجدہ کرو وَاعْبُدُوْا : اور عبادت کرو رَبَّكُمْ : اپنا رب وَافْعَلُوا : اور کرو الْخَيْرَ : اچھے کام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح (دوجہان میں کامیابی) پاؤ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اورسجدہ کرو، اپنے ربّ کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ 127
سورة الْحَجّ 127 یعنی فلاح کی توقع اگر کی جاسکتی ہے تو یہ روش اختیار کرنے سے کی جاسکتی ہے۔ لیکن جو شخص بھی یہ روش اختیار کرے اسے اپنے عمل پر گھمنڈ نہ ہونا چاہیے کہ میں جب ایسا عبادت گزر اور نیکو کار ہوں تو ضرور فلاح پاؤں گا، بلکہ اسے اللہ کے فضل کا امیدوار رہنا چاہیے اور اسی کی رحمت سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں۔ وہ فلاح دے تب ہی کوئی شخص فلاح پاسکتا ہے۔ خود فلاح حاصل کرلینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ " شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ " یہ فقرہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح فلاح نصیب ہونا مشکوک ہے۔ بلکہ دراصل یہ شاہانہ انداز بیان ہے۔ بادشاہ اگر اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو، شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے، تو ملازم کے گھر شادیانے بج جاتے ہیں کیونکہ یہ اشارۃً ایک وعدہ ہے اور ایک مہربان آقا سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کسی خدمت پر ایک صلے کی امید وہ خود دلائے اور پھر اپنے وفادار خادم کو مایوس کرے۔ امام شافعی، امام احمد، عبداللہ بن مبارک اور اسحاق بن راھَوَیہ کے نزدیک سورة حج کی یہ آیت بھی آیت سجدہ ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ، امام مالک، حسن بصری، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری اس جگہ سجدہ تلاوت کے قائل نہیں ہیں۔ دونوں طرف کے دلائل ہم مختصراً یہاں نقل کردیتے ہیں۔ پہلے گروہ کا اولین استدلال ظاہر آیت سے ہے کہ اس میں سجدے کا حکم ہے۔ دوسری دلیل عقبہ بن عامر کی وہ روایت ہے جسے احمد، ابو داؤد، ترمذی، ابن مردویہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ قلت یا رسول اللہ افضلت سورة الحج علیٰ سائر القراٰن بسجدتین ؟ قال نعم فمن لم یسجدھما فلا یقرأھما۔ " میں نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا سورة حج کو سارے قرآن پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں، پس جو ان پر سجدہ نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے "۔ تیسری دلیل ابو داؤد اور ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جس میں عمر، علی، عثمان، ابن عمر، ابن عباس، ابو الدرداء، ابو موسیٰ اشعری اور عمار بن یاسر ؓ سے یہ بات منقول ہے کہ سورة حج میں دو سجدے ہیں۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ آیت میں محض سجدے کا حکم نہیں ہے بلکہ رکوع اور سجدے کا ایک ساتھ ہے اور قرآن میں رکوع و سجود ملا کر جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ نیز رکوع و سجود کا اجتماع نماز ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ عقبہ بن عامر کی روایت کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کو ابن لہیعہ ابو المصعب بصری سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔ خاص کر ابو المصعب تو وہ شخص ہے جو حجاج بن یوسف کے ساتھ کعبے پر منجنیق سے پتھر برسانے والوں میں شامل تھا۔ عمرو بن عاص والی روایت کو بھی وہ پایہ اعتبار سے ساقط قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کو سعید العتقی عبداللہ بن منین الکلابی سے روایت کرتا ہے اور دونوں مجہول ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے اور کس پایہ کے آدمی تھے۔ اقوال صحابہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے سورة حج میں دو سجدے ہونے کا یہ مطلب صاف بتایا ہے کہ الاولیٰ عزمۃ و الاخرۃ تعلیم، یعنی پہلا سجدہ لازمی ہے، اور دوسرا سجدہ تعلیمی۔
Top