Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 11
الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ١ؕ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
الَّذِيْنَ : جو يَرِثُوْنَ : وارث (جمع) الْفِرْدَوْسَ : جنت هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جو میراث میں فردوس 10 پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ 11
سورة الْمُؤْمِنُوْن 10 فردوس، جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے جو قریب قریب تمام انسانی زبانوں میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔ سنسکرت میں پردِیْشَا، قدیم کلدانی زبان میں پردیسا، قدیم ایرانی (ژند) میں پیری وائزا، عبرانی میں پردیس، ارضی میں پرویز، سُریانی میں فردیسو، یونانی میں پارا دئسوس، لاطینی میں پاراڈائسس، اور عربی میں فردوس۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایک ایسے باغ کے لیے بولا جاتا ہے جس کے گرد حصار کھنچا ہوا ہو، وسیع ہو، آدمی کی قیام گاہ سے متصل ہو، اور اس میں ہر قسم کے پھل، خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں۔ بلکہ بعض زبانوں میں تو منتخب پالتو پرندوں اور جانوروں کا بھی پایا جانا اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ قرآن سے پہلے عرب کے کلام جاہلیت میں بھی لفظ فردوس مستعمل تھا۔ اور قرآن میں اس کا اطلاق متعدد باغوں کے مجموعے پر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورة کہف میں ارشد ہوا کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً ، " ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہیں "۔ اس سے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ فردوس ایک بڑی جگہ ہے جس میں بکثرت باغ اور چمن اور گلشن پائے جاتے ہیں۔ اہل ایمان کے وارث فردوس ہونے پر سورة طٰہٰ (حاشیہ 83) ، اور سورة انبیاء (حاشیہ 99 میں کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 11 ان آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں اول یہ کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمد ﷺ کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کرلیں گے اور اس رویے کے پابند ہوجائیں گے وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم، نسل یا ملک کے ہوں۔ دوم یہ کہ فلاح محض اقرار ایمان، یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرلے، تب وہ فلاح سے ہمکنار ہوگا۔ سوم یہ کہ فلاح محض دنیوی اور مادی خوش حالی اور محدود وقتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک وسیع تر حالت خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر رہتا ہے۔ یہ چیز ایمان و عمل صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوش حالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کی نقیب ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ چہارم یہ کہ مومنین کے ان اوصاف کو نبی ﷺ کے متن کی صداقت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلہ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغاز میں تجربی دلیل ہے، یعنی یہ کہ اس نبی کی تعلیم نے خود تمہاری ہی سوسائٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کرسکتی تھی۔ اس کے بعد مشاہداتی دلیل ہے، یعنی یہ کہ انسان کے اپنے وجود میں اور گرد و پیش کی کائنات میں جو آیات نظر آتی ہیں وہ سب توحید اور آخرت کی اس تعلیم کے بر حق ہونے کی شہادت دے رہی ہیں جسے محمد ﷺ پیش کرتے ہیں۔ پھر تاریخی دلائل آتے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور اس کے منکرین کی کشمکش آج نئی نہیں ہے بلکہ ان ہی بنیادوں پر قدیم ترین زمانے سے چلی آ رہی ہے اور اس کشمکش کا ہر زمانے میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ فریقین میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون۔
Top