Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 4
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِلزَّكٰوةِ : زکوۃ (کو) فٰعِلُوْنَ : ادا کرنے والے
زکوٰة کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔ 5
سورة الْمُؤْمِنُوْن 5 " زکوٰۃ دینے " اور " زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہونے " میں معنی کے اعتبار سے بڑا فرق ہے جسے نظر انداز کر کے دونوں کو ہم معنی سمجھ لینا صحیح نہیں ہے۔ آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہاں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃ کا معروف انداز چھوڑ کر للِزَّکوٰۃِ فَاعِلُوْنَ کا غیر معمولی طرز بیان اختیار کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں زکوٰۃ کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے۔ ایک " پاکیزگی "۔ دوسرے " نشو و نما "۔ کسی چیز کی ترقی میں جو چیزیں مانع ہوں ان کو دور کرنا، اور اس کے اصل جوہر کو پروان چڑھانا، یہ دو تصورات مل کر زکوٰۃ کا پورا تصور بناتے ہیں۔ پھر یہ لفظ جب اسلامی اصطلاح بنتا ہے تو اس کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے۔ ایک وہ مال جو مقصد تزکیہ کے لیے نکالا جائے۔ دوسرے بجائے خود تزکیہ کا فعل۔ اگر یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ کہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ تزکیہ کی غرض سے اپنے مال کا ایک حصہ دیتے یا ادا کرتے ہیں۔ اس طرح بات صرف مال دینے تک محدود ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر للزَّکوٰۃِ فَاعِلُوْنَ کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ تزکیہ کا فعل کرتے ہیں، اور اس صورت میں بات صرف مالی زکوٰۃ ادا کرنے تک محدود نہ رہے گی بلکہ تزکیہ نفس، تزکیہ اخلاق، تزکیہ زندگی، تزکیہ مال، غرض ہر پہلو کے تزکیے تک وسیع ہوجائے گی۔ اور مزید براں، اس کا مطلب صرف اپنی ہی زندگی کے تزکیے تک محدود نہ رہے گا بلکہ اپنے گرد و پیش کی زندگی کے تزکیے تک بھی پھیل جائے گا۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں اس آیت کا ترجمہ یوں ہوگا کہ " وہ تزکیے کا کام کرنے والے لوگ ہیں "، یعنی اپنے آپ کو بھی پاک کرتے ہیں اور دوسروں کو پاک کرنے کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں، اپنے اندر بھی جوہر انسانیت کو نشو و نما دیتے ہیں اور باہر کی زندگی میں بھی اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورة اعلیٰ میں فرمایا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّیٰ ہ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہ فَصَلّیٰ۔ " فلاح پائی اس شخص نے جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کر کے نماز پڑھی "۔ اور سورة شمس میں فرمایا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاہ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا۔ " با مراد ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا "۔ مگر یہ آیت ان دونوں کی بہ نسبت وسیع تر مفہوم کی حامل ہے، کیونکہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکیے پر زور دیتی ہیں، اور یہ بجائے خود فعل تزکیہ کی اہمیت بیان کرتی ہے جو اپنی ذات اور معاشرے کی زندگی، دونوں ہی کے تزکیے پر حاوی ہے۔
Top