Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 50
وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ۠   ۧ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے (عیسی) کو وَاُمَّهٗٓ : اور ان کی ماں اٰيَةً : ایک نشانی وَّاٰوَيْنٰهُمَآ : اور ہم نے انہیں ٹھکانہ دیا اِلٰى : طرف رَبْوَةٍ : ایک بلند ٹیلہ ذَاتِ قَرَارٍ : ٹھہرنے کا مقام وَّمَعِيْنٍ : اور جاری پانی
اور ابنِ مریمؑ  اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشان بنایا 43 اور ان کو ایک سطحِ مُرتَفَع پر رکھا جو اطمینان کی جگہ تھی اور چشمے اس میں جاری تھے۔ 44
سورة الْمُؤْمِنُوْن 43 یہ نہیں فرمایا کہ ایک نشانی ابن مریم تھے اور ایک نشانی خود مریم۔ اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ ابن مریم اور اس کی ماں کو دو نشانیاں بنایا۔ بلکہ فرمایا یہ ہے کہ وہ دونوں مل کر ایک نشانی بنائے گئے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ باپ کے بغیر ابن مریم کا پیدا ہونا، اور مرد کی صحبت کے بغیر مریم کا حاملہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو ان دونوں کو ایک نشانی بناتی ہے۔ جو لوگ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بےپدر کے منکر ہیں وہ ماں اور بیٹے کے ایک آیت ہونے کی کیا توجیہ کریں گے ؟ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حواشی 44۔ 53۔ النساء حواشی 190۔ 212۔ 213۔ جلد سوم، مریم، حواشی 15 تا 22 الانبیاء، حواشی 89۔ 90)۔ یہاں دو باتیں اور بھی قابل توجہ ہیں۔ اول یہ کہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ ماجدہ کا معاملہ جاہل انسانوں کی ایک دوسری کمزوری کی نشان دہی کرتا ہے۔ اوپر جن انبیاء کا ذکر تھا ان پر تو ایمان لانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا گیا کہ تم بشر ہو، بھلا بشر بھی کہیں نبی ہوسکتا ہے۔ مگر حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ کے جب لوگ معتقد ہوئے تو پھر ایسے ہوئے کہ انہیں بشریت کے مقام سے اٹھا کر خدائی کے مرتبے تک پہنچا دیا۔ دوم یہ کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی معجزانہ پیدائش، اور ان کی گہوارے والی تقریر سے اس کے معجزہ ہونے کا کھلا کھلا ثبوت دیکھ لینے کے باوجود ایمان لانے سے انکار کیا اور حضرت مریم پر تہمت لگائی انکو پھر سزا بھی ایسی دی گئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا کے سامنے ایک نمونہ عبرت بن گئی۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 44 مختلف لوگوں نے اس سے مختلف مقامات مراد لیے ہیں۔ کوئی دمشق کہتا ہے، کوئی الرَّملہ، کوئی بیت المقدس، اور کوئی مصر مسیحی روایات کے مطابق حضرت مریم حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد ان کی حفاظت کے لیے دو مرتبہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔ پہلے ہیرو دیس بادشاہ کے عہد میں وہ انہیں مصر لے گئیں اور اس کی موت تک وہیں رہیں۔ پھر از خلاؤس کے عہد حکومت میں ان کو گلیل کے شہر ناصرہ میں پناہ لینی پڑی (متی 2۔ 13 تا 23)۔ اب یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ قرآن کا اشارہ کس مقام کی طرف ہے لغت میں ربوہ اس بلند زمین کو کہتے ہیں جو ہموار ہو اور اپنے گرد و پیش کے علاقے سے اونچی ہو۔ ذات قرار سے مراد یہ ہے کہ اس جگہ ضرورت کی سب چیزیں پائی جاتی ہوں اور رہنے والا وہاں بفراغت زندگی بسر کرسکتا ہو۔ اور معین سے مراد ہے بہتا ہوا پانی یا چشمہ جاری۔
Top