Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے پیغمبرو، 45 کھاوٴ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح، 46 تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خُوب جانتا ہوں
سورة الْمُؤْمِنُوْن 45 پچھلے دو رکوعوں میں انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب یٰٓاَیُّھَا الُّرُسُل کہہ کر تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں یہ سارے پیغمبر یکجا موجود تھے اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کو ایک امت، ایک جماعت ایک گروہ قرار دیا گیا ہے، اس لیے طرز بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ کھنچ جائے۔ گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دی جا رہی ہے۔ مگر اس طرز کلام کی لطافت اس دور کے بعض کند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آسکی اور وہ اس سے یہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب محمد ﷺ کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضور ﷺ کے بعد بھی سلسلہ نبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ تعجب ہے جو لوگ زبان و ادب کے ذوق لطیف سے اس قدر کورے ہیں وہ قرآن کی تفسیر کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 46 پاک چیزوں سے مراد ایسی چیزیں ہیں جو بجائے خود بھی پاکیزہ ہوں، اور پھر حلال طریقے سے بھی حاصل ہوں۔ طیبات کھانے کی ہدایت کر کے رہبانیت اور دنیا پرستی کے درمیان اسلام کی راہ اعتدال کی طرف اشارہ کردیا گیا۔ مسلمان نہ تو راہب کی طرح اپنے آپ کو پاکیزہ رزق سے محروم کرتا ہے، اور نہ دنیا پرست کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر چیز پر منہ مار دیتا ہے۔ عمل صالح سے پہلے طیبات کھانے کی ہدایت سے صاف اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ حرام خوری کے ساتھ عمل صالح کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ صلاح کے لیے شرط اول یہ ہے کہ آدمی رزق حلال کھائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ " لوگو، اللہ خود پاک ہے اس لیے پاک ہی چیز کو پسند کرتا ہے " پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا الرجل یطیل السفر اشعث اغبر و مطعمہ حرام و مشربہ حرام و ملبسہ حرام و غذی بالحرام یمد یدیہ الی السماء یا رب یا رب فانی یستجاب لذالک۔ " ایک شخص لمبا سفر کر کے غبار آلود و پراگندہ حال آتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتا ہے، یا رب یا رب، مگر حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام، کپڑے اس کے حرام، اور جسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو "۔ (مسلم، ترمذی، احمد من حدیث ابی ہریرہ ؓ)۔
Top