Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 62
وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَا نُكَلِّفُ : اور ہم تکلیف نہیں دیتے نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی طاقت کے مطابق وَلَدَيْنَا : اور ہمارے پاس كِتٰبٌ : ایک کتاب (رجسٹر) يَّنْطِقُ : وہ بتلاتا ہے بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَهُمْ : اور وہ (ان) لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے (ظلم نہ ہوگا)
ہم کسی شخص کو اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، 55 اور ہمارے  پاس ایک کتاب ہے ، جو (ہر ایک کا حال)ٹھیک ٹھیک بتا دینے والی ہے، 56 اور لوگوں پر ظلم بہرحال نہیں کیا جائے گا۔ 57
سورة الْمُؤْمِنُوْن 55 اس سیاق وسباق میں یہ فقرہ اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتا ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پچھلی آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ بھلائیاں لوٹنے والے اور سبقت کر کے انہیں پالینے والے دراصل کون لوگ ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں۔ اس مضمون کے بعد فوراً ہی یہ فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی مقدرت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتے، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ سیرت، یہ اخلاق اور یہ کردار کوئی فوق البشری چیز نہیں ہے۔ تم ہی جیسے گوشت پوست کے انسان اس روش پر چل کر دکھا رہے ہیں۔ لہٰذا تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو انسانی مقدرت سے باہر ہے۔ انسان کو تو مقدرت اس رویے کی بھی حاصل ہے جس پر تم چل رہے ہو، اور اس کی بھی حاصل ہے جس پر تمہاری اپنی قوم کے چند اہل ایمان چل رہے ہیں۔ اب فیصلہ جس چیز پر ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں امکانی رویوں میں سے کون کس کا انتخاب کرتا ہے۔ اس انتخاب میں غلطی کر کے اگر آج تم اپنی ساری محنتیں اور کوششیں برائیاں سمیٹنے میں صرف کردیتے ہو اور بھلائیوں سے محروم رہ جاتے ہو، توکل اپنی اس حماقت کا خمیازہ بھگتنے سے تم کو یہ جھوٹی معذرت نہیں بچا سکے گی کہ بھلائیوں تک پہنچنے کا راستہ ہماری مقدرت سے باہر تھا۔ اس وقت یہ عذر پیش کرو گے تو تم سے پوچھا جائے گا کہ اگر یہ راستہ انسانی مقدرت سے باہر تھا تو تم ہی جیسے بہت سے انسان اس پر چلنے میں کیسے کامیاب ہوگئے۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 56 کتاب سے مراد ہے نامہ اعمال جو ہر ایک شخص کا الگ الگ مرتب ہو رہا ہے، جس میں اس کی ایک ایک بات، ایک ایک حرکت، حتیٰ کہ خیالات اور ارادوں تک کی ایک ایک حالت ثبت کی جا رہی ہے۔ اسی کے متعلق سورة کہف میں فرمایا گیا ہے کہ وَ وُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُولُوْنَ یٰوَیْلَتَناً مَالِ ھٰذا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرِۃً اِلَّآ اَحْصٰھَا۔ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِراً وَلَا یَظُلِمُ رَبُّکَ اَحَداً۔ ، " اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا، پھر تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اس کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہونگے کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ایسی نہیں رہ گئی جو اس میں درج نہ ہو۔ جو جو کچھ انہوں نے کہا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے، اور تمہارا رب کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے "۔ (آیت 49)۔ بعض لوگوں نے یہاں کتاب سے مراد قرآن لے کر آیت کا مطلب خبط کردیا ہے۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 57 یعنی نہ تو کسی کے ذمے کوئی ایسا الزام تھوپا جائے گا جس کا وہ درحقیقت قصور وار نہ ہو، نہ کسی کی کوئی ایسی نیکی ماری جائے گی جسکے صلے کا وہ فی الواقع مستحق ہو، نہ کسی کو بیجا سزا دی جائے گی اور نہ کسی کو حق کے مطابق بجا انعام سے محروم رکھا جائے گا۔
Top