Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - An-Noor : 5
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا١ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا
: مگر
الَّذِيْنَ تَابُوْا
: جن لوگوں نے توبہ کرلی
مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ
: اس کے بعد
وَاَصْلَحُوْا
: اور انہوں نے اصلاح کرلی
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور (اُن کے حق میں)غفورو رحیم ہے۔
6
سورة النُّوْر
6
اس حکم کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی آشنائیوں اور ناجائز تعلقات کے چرچے قطعی طور پر بند کردیے جائیں، کیونکہ اس سے بیشمار برائیاں پھیلتی ہیں، اور ان میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس طرح غیر محسوس طریقے پر ایک عام زنا کارانہ ماحول بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک شخص مزے لے لے کر کسی کے صحیح یا غلط گندے واقعات دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ دوسرے اس میں نمک مرچ لگا کر اور لوگوں تک انہیں پہنچاتے ہیں، اور ساتھ ساتھ کچھ مزید لوگوں کے متعلق بھی اپنی معلومات یا بد گمانیاں بیان کردیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ شہوانی جذبات کی ایک عام رو چل پڑتی ہے، بلکہ برے میلانات رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ معاشرے میں کہاں کہاں ان کے لیے قسمت آزمائی کے مواقع موجود ہیں۔ شریعت اس چیز کا سد باب پہلے ہی قدم پر کردینا چاہتی ہے۔ ایک طرف وہ حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کا جرم ثابت ہوجائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو جو کسی اور جرم پر نہیں دی جاتی۔ اور دوسری طرف وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے وہ یا تو شہادتوں سے اپنا الزام ثابت کرے، ورنہ اس پر اسی کوڑے برسا دو تاکہ آئندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلا ثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے۔ بالفرض اگر الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو تب بھی اسے خاموش رہنا چاہیے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہیے، تاکہ گندگی جہاں ہے وہیں پڑی رہے، آگے نہ پھیل سکے۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو معاشرے میں بیہودہ چرچے کرنے کے بجائے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں ملزم کا جرم ثابت کر کے اسے سزا دلوا دے۔ اس قانون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تفصیلات نگاہ میں رہیں۔ اس لیے ہم ذیل میں ان کو نمبر وار بیان کرتے ہیں
1
آیت میں الفاظ " وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ " استعمال ہوئے ہیں جن کے معنی ہیں " وہ لوگ جو الزام لگائیں "۔ لیکن سیاق وسباق یہ بتاتا ہے کہ یہاں الزام سے مراد ہر قسم کا الزام نہیں، بلکہ مخصوص طور پر زنا کا الزام ہے۔ پہلے زنا کا حکم بیان ہوا ہے اور آگے لعِان کا حکم آ رہا ہے، ان دونوں کے درمیان اس حکم کا آنا صاف اشارہ کر رہا ہے کہ یہاں " الزام " سے مراد کس نوعیت کا الزام ہے۔ پھر الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ (الزام لگائیں پاک دامن عورتوں پر) سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ مراد وہ الزام ہے جو پاک دامنی کے خلاف ہو۔ اس پر مزید یہ کہ الزام لگانے والوں سے اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پورے قانون اسلامی میں صرف زنا کا نصاب شہادت ہے۔ ان قرائن کی بنا پر تمام امت کے علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت میں صرف الزام زنا کا حکم بیان ہوا ہے، جس کے لیے علماء نے ’ قَذْف " کی مستقل اصطلاح مقرر کردی ہے تاکہ دوسری تہمت تراشیاں (مثلاً کسی کو چور، یا شرابی، یا سود خوار، یا کافر کہہ دینا) اس حکم کی زد میں نہ آئیں۔ " قذف " کے سوا دوسری تہمتوں کی سزا قاضی خود تجویز کرسکتا ہے، یا مملکت کی مجلس شوریٰ حسب ضرورت ان کے لیے توہین اور ازالہ حیثیت عرفی کا کوئی عام قانون بنا سکتی ہے۔
2
آیت میں اگرچہ الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتُ (پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں) استعمال ہوئے ہیں، لیکن فقہاء اس بات پر مفتق ہیں کہ حکم صرف عورتوں ہی پر الزام لگانے تک محدود نہیں ہے بلکہ پاک دامن مردوں پر بھی الزام لگانے کا یہی حکم ہے۔ اسی طرح اگرچہ الزام لگانے والوں کے لیے اَلَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، لیکن یہ صرف مردوں ہی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اگر جرم قذف کی مرتکب ہوں تو وہ اسی حکم کی سزاوار ہوں گی۔ کیونکہ جرم کی شناخت میں قاذف یا مقذوف کے مرد یا عورت ہونے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ لہٰذا قانون کی شکل یہ ہوگی کہ جو مرد یا عورت بھی کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگائے اس کا یہ حکم ہے۔ (واضح رہے کہ یہاں محصن اور محصنہ سے مراد شادی شدہ مرد و عورت نہیں بلکہ پاک دامن مرد و عورت ہیں)۔
3
یہ حکم صرف اسی صورت میں نافذ ہوگا جبکہ الزام لگانے والے نے محصنین یا محصنات پر الزام لگایا ہو کسی غیر محصن پر الزام لگانے کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ غیر محصن اگر بد کاری میں معروف ہو تب تو اس پر " الزام " لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ ایسا نہ ہو تو اس کے خلاف بلا ثبوت الزام لگانے والے کے لیے قاضی خود سزا تجویز کرسکتا ہے، یا ایسی صورتوں کے لیے مجلس شوریٰ حسب ضرورت قانون بنا سکتی ہے۔
4
کسی فعل قذف کے مستلزم سزا ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ کسی نے کسی پر بد کاری کا بلا ثبوت الزام لگایا ہے، بلکہ اس کے لیے کچھ شرطیں قاذف (الزام لگانے والے) میں اور کچھ مقذوف (الزام کے ہدف بنائے جانے والے) میں، اور کچھ خود فعل قذف میں پائی جانی ضروری ہیں۔ قاذف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں اول یہ کہ وہ بالغ ہو۔ بچہ اگر قذف کا مرتکب ہو تو اسے تعزیر دی جاسکتی ہے مگر اس پر حد جاری نہیں کی جاسکتی۔ دوم یہ کہ وہ عاقل ہو۔ مجنون پر حد قذف جاری نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح حرام نشے کے سوا کسی دوسری نوعیت کے نشے کی حالت میں، مثلاً کلوروفارم کے زیر اثر الزام لگانے والے کو بھی مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سوم یہ کہ اس نے اپنے آزاد ارادے سے (فقہاء کی اصطلاح میں طائعاً) یہ حرکت کی ہو۔ کسی کے جبر سے قذف کا ارتکاب کرنے والا مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چہارم یہ کہ وہ مقذوف کا اپنا باپ یا دادا نہ ہو، کیونکہ ان پر حد قذف جاری نہیں کی جاسکتی۔ ان کے علاوہ حنفیہ کے نزدیک ایک پانچویں شرط یہ بھی ہے کہ ناطق ہو، گونگا اگر اشاروں میں الزام لگائے تو وہ حد قذف کا مستوجب نہ ہوگا۔ لیکن امام شافعی کو اس سے اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر گونگے کا اشارہ بالکل صاف اور صریح ہو جسے دیکھ کر ہر شخص سمجھ لے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے تو وہ قاذف ہے، کیونکہ اس کا اشارہ ایک شخص کو بد نام و رسوا کردینے میں تصریح بالقول سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس کے برعکس حنفیہ کے نزدیک محض اشارے کی صراحت اتنی قوی نہیں ہے کہ اس کی بنا پر ایک آدمی کو
80
کوڑوں کی سزا دے ڈالی جائے۔ وہ اس پر صرف تعزیر دیتے ہیں۔ مقذوف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں پہلی شرط یہ کہ وہ عاقل ہو، یعنی اس پر بحالت عقل زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ مجنون پر (خواہ وہ بعد میں عاقل ہوگیا ہو یا نہ ہوا ہو) الزام لگانے والا حد قذف کا مستحق نہیں ہے۔ کیونکہ مجنون اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کرسکتا، اور اس پر اگر زنا کی شہادت قائم بھی ہوجائے تو نہ وہ حد زنا کا مستحق ہوتا ہے نہ اس کی عزت پر حرف آتا ہے۔ لہٰذا اس پر الزام لگانے والا بھی حد قذف کا مستحق نہ ہونا چاہیے۔ لیکن امام مالک اور امام لیث بن سعد کہتے ہیں کہ مجنون کا قاذف حد کا مستحق ہے کیونکہ بہرحال وہ ایک بےثبوت الزام لگا رہا ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ بالغ ہو۔ یعنی اس پر بحالت بلوغ زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا ہو بچے پر الزام لگانا، یا جواب پر اس امر کا الزام لگانا کہ وہ بچپن میں اس فعل کا مرتکب ہوا تھا، حد قذف کا موجب نہیں ہے، کیونکہ مجنون کی طرح بچہ بھی اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کرسکتا، نہ وہ حد زنا کا مستوجب ہوتا ہے، اور نہ اس کی عزت مجروح ہوتی ہے۔ لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ سن بلوغ کے قریب عمر کے لڑکے پر اگر زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا جائے تب تو قاذف حد کا مستحق نہیں ہے، لیکن اگر ایسی عمر کی لڑکی پر زنا کرانے کا الزام لگایا جائے جس کے ساتھ مباشرت ممکن ہو، تو اس کا قاذف حد کا مستحق ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف لڑکی بلکہ اس کے خاندان تک کی عزت مجروح ہوجاتی ہے اور لڑکی کا مستقبل خراب ہوجاتا ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو، یعنی اس پر بحالت اسلام زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو، کافر پر الزام، یا مسلم پر یہ الزام کہ وہ بحالت غلامی اس کا مرتکب ہوا تھا، موجب حد نہیں ہے، کیونکہ غلام کی بےبسی اور کمزوری یہ امکان پیدا کردیتی ہے کہ وہ اپنی عصمت کا اہتمام نہ کرسکے۔ خود قرآن میں بھی غلامی کی حالت کو احصان کی حالت قرار نہیں دیا گیا ہے، چناچہ سورة نساء میں مُحْصَنَات کا لفظ لونڈی کے بالمقابل استعمال ہوا ہے۔ لیکن داؤد ظاہری اس دلیل کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ لونڈی اور غلام کا قاذف بھی حد کا مستحق ہے۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ عفیف ہو، یعنی اس کا دامن زنا اور شبہ زنا سے پاک ہو۔ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر پہلے کبھی جرم زنا ثابت نہ ہوچکا ہو۔ شبہ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نکاح فاسد، یا خفیہ نکاح، یا مشتبہ ملکیت، یا شبہ نکاح میں مباشرت نہ کرچکا ہو، نہ اس کے حالات زندگی ایسے ہوں جن میں اس پر بد چلنی اور آبرو باختگی کا الزام چسپاں ہوسکتا ہو، اور نہ زنا سے کم تر درجہ کی بد اخلاقیوں کا الزام اس پر پہلے کبھی ثابت ہوچکا ہو، کیونکہ ان سب صورتوں میں اس کی عفت مجروح ہوجاتی ہے، اور ایسی مجروح عفت پر الزام لگانے والا
80
کوڑوں کی سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ اگر حد قذف جاری ہونے سے پہلے مقذوف کے خلاف کسی جرم زنا کی شہادت قائم ہوجائے، تب بھی قاذف چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ وہ شخص پاک دامن نہ رہا جس پر اس نے الزام لگایا تھا۔ مگر ان پانچوں صورتوں میں حد نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مجنون، یا بچے، یا کافر، یا غلام، یا غیر عفیف آدمی پر بلا ثبوت الزام زنا لگا دینے والا مستحق تعزیر بھی نہیں ہے۔ اب وہ شرطیں لیجیے جو خود فعل قذف میں پائی جانی چاہییں۔ ایک الزام کو دو چیزوں میں سے کوئی ایک چیز قذف بنا سکتی ہے۔ یا تو قاذف نے مقذوف پر ایسی وطی کا الزام لگایا ہو جو اگر شہادتوں سے ثابت ہوجائے تو مقذوف پر حد واجب ہوجائے۔ یا پھر اس نے مقذوف کو ولد الزنا قرار دیا ہو۔ لیکن دونوں صورتوں میں الزام صاف اور صریح ہونا چاہیے۔ کنایات کا اعتبار نہیں ہے جن سے زنا یا طعن فی النسب مراد ہونے کا انحصار قاذف کی نیت پر ہے۔ مثلاً کسی کو فاسق فاجر، بد کار، بد چلن وغیرہ الفاظ سے یاد کرنا۔ یا کسی عورت کو رنڈی، کسبن، یا چھنال کہنا، یا کسی سید کو پٹھان کہہ دینا کنایہ ہے جس سے صریح قذف نہیں قرار دیا جاسکتا۔ البتہ تعریض کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا وہ بھی قذف ہے یا نہیں۔ مثلاً کہنے والا کسی کو مخاطب کر کے یوں کہے کہ " ہاں، مگر میں تو زانی نہیں ہوں "، یا " میری ماں نے تو زنا کرا کے مجھے نہیں جنا ہے " امام مالک کہتے ہیں کہ اس طرح کی تعریض جس سے صاف سمجھ میں آجائے کہ قائل کی مراد مخاطب کو زانی یا ولد الزنا قرار دینا ہے، قذف ہے جس پر حد واجب ہوجاتی ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، اور امام شافعی، سفیان ثوری، ابن شبرمہ، اور حسن بن صالح اس بات کے قائل ہیں کہ تعریض میں بہرحال شک کی گنجائش ہے، اور شک کے ساتھ حد جاری نہیں کی جاسکتی۔ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ تعریض اگر لڑائی جھگڑے میں ہو تو قذف ہے اور ہنسی مذاق میں ہو تو قذف نہیں ہے۔ خلفاء میں سے حضرت عمر اور حضرت علی نے تعریض پر حد جاری کی ہے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں دو آدمیوں کے درمیان گالم گلوچ ہوگئی۔ ایک نے دوسرے سے کہا " نہ میرا باپ زانی تھا نہ میری ماں زانیہ تھی "۔ معاملہ حضرت عمر ؓ کے پاس آیا۔ آپ نے حاضرین سے پوچھا آپ لوگ اس سے کیا سمجھتے ہیں ؟ کچھ لوگوں نے کہا اس نے اپنے باپ اور ماں کی تعریف کی ہے، اس کے ماں باپ پر تو حملہ نہیں کیا۔ کچھ دوسرے لوگوں نے کہا اس کے لیے اپنے ماں باپ کی تعریف کرنے کے لیے کیا یہی الفاظ رہ گئے تھے ؟ ان خاص الفاظ کو اس موقع پر استعمال کرنے سے صاف مراد یہی ہے کہ اس کے ماں باپ زانی تھے۔ حضرت عمر ؓ نے دوسرے گروہ سے اتفاق کیا اور حد جاری کردی (جصاص ج
3
، ص
330
)۔ اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کسی پر عمل قوم لوط ؑ کے ارتکاب کا الزام لگانا قذف ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ اس کو قذف نہیں مانتے۔ امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک اور امام شافعی اسے قذف قرار دیتے ہیں اور حد کا حکم لگاتے ہیں۔
5
جرم قذف قابل دست اندازی سرکار) (CognizableOffene ہے یا نہیں، اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ یہ حق اللہ ہے اس لیے قاذف پر بہرحال حد جاری کی جائے گی خواہ مقذوف مطالبہ کرے یا نہ کرے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک یہ اس معنی میں تو حق اللہ ضرور ہے کہ جب جرم ثابت ہوجائے تو حد جاری کرنا واجب ہے، لیکن اس پر مقدمہ چلانا مقذوف کے مطالبے پر موقوف ہے، اور اس لحاظ سے یہ حق آدمی ہے۔ یہی رائے امام شافعی اور امام اوزاعی کی بھی ہے۔ امام مالک کے نزدیک اس میں تفصیل ہے۔ اگر حاکم کے سامنے قذف کا ارتکاب کیا جائے تو یہ جرم قابل دست اندازی سرکار ہے، ورنہ اس پر کارروائی کرنا مقذوف کے مطالبے پر منحصر ہے۔
6
جرم قذف قابل راضی نامہ (CompoundableOffence) نہیں ہے۔ مقذوف عدالت میں دعویٰ لے کر نہ آئے تو یہ دوسری بات ہے لیکن عدالت میں معاملہ آجانے کے بعد قاذف کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنا الزام ثابت کرے، اور ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس پر حد جاری کی جائے گی۔ نہ عدالت اس کو معاف کرسکتی ہے اور نہ خود مقذوف، نہ کسی مالی تاوان پر معاملہ ختم ہوسکتا ہے، نہ توبہ کر کے یا معافی مانگ کر وہ سزا سے بچ سکتا ہے۔ نبی ﷺ کا یہ ارشاد پہلے گزر چکا ہے کہ تعافوا الحدود فیما بینکم فما بلغنی من حدٍّ فقد وجب۔ " حدود کو آپس ہی میں معاف کردو، مگر جس حد کا معاملہ میرے پاس پہنچ گیا وہ پھر واجب ہوگئی "۔
7
حنفیہ کے نزدیک حد قذف کا مطالبہ یا تو خود مقذوف کرسکتا ہے، یا پھر وہ جس کے نسب پر اس سے حرف آتا ہو اور مطالبہ کرنے کے لیے خود مقذوف موجود نہ ہو، مثلاً باپ، ماں، اولاد اور اولاد کی اولاد۔ مگر امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک یہ حق قابل توریث ہے۔ مقذوف مر جائے تو اس کا ہر شرعی وارث حد کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ البتہ یہ عجیب بات ہے کہ امام شافعی بیوی اور شوہر کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور دلیل یہ ہے کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہوجاتا ہے اور بیوی یا شوہر میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دوسرے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا۔ حالانکہ یہ دونوں ہی دلیلیں کمزور ہیں۔ مطالبہ حد کو قابل توریث ماننے کے بعد یہ کہنا کہ یہ حق بیوی اور شوہر کو اس لیے نہیں پہنچتا کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہوجاتا ہے خود قرآن کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن نے ایک کے مرنے کے بعد دوسرے کو اس کا وارث قرار دیا ہے۔ رہی یہ بات کہ زوجین میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دوسرے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا، تو یہ شوہر کے معاملہ میں چاہے صحیح ہو مگر بیوی کے معاملے میں تو قطعاً غلط ہے۔ جس کی بیوی پر الزام رکھا جائے اس کی تو پوری اولاد کا نسب مشتبہ ہوجاتا ہے۔ علاوہ بریں یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ حد قذف صرف نسب پر حرف آنے کی وجہ سے واجب قرار دی گئی ہے۔ نسب کے ساتھ عزت پر حرف آنا بھی اسکی ایک اہم وجہ ہے، اور ایک شریف مرد یا عورت کے لیے یہ کچھ کم بےعزتی نہیں ہے کہ اس کی بیوی یا اس کے شوہر کو بد کار قرار دیا جائے۔ لہٰذا اگر حد قذف کا مطالبہ قابل توریث ہو تو زوجین کو اس سے مستثنیٰ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔
8
یہ بات ثابت ہوجانے کے بعد کہ ایک شخص نے قذف کا ارتکاب کیا ہے، جو چیز اسے حد سے بچا سکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ وہ چار گواہ ایسے لائے جو عدالت میں یہ شہادت دیں کہ انہوں نے مقذوف کو فلاں مرد یا عورت کے ساتھ بالفعل زنا کرتے دیکھا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک یہ چاروں گواہ بیک وقت عدالت میں آنے چاہییں اور انہیں بیک وقت شہادت دینی چاہیے، کیونکہ اگر وہ یکے بعد دیگرے آئیں تو ان میں سے ہر ایک قاذف ہوتا چلا جائے گا اور اس کے لیے پھر چار گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ لیکن یہ ایک کمزور بات ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی اور عثمان البتّی نے کہی ہے کہ گواہوں کے بیک وقت آنے اور یکے بعد دیگرے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ دوسرے مقدمات کی طرح گواہ ایک کے بعد ایک آئے اور شہادت دے۔ حنفیہ کے نزدیک ان گواہوں کا عادل ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر قذف چار فاسق گواہ بھی لے آئے تو وہ حد قذف سے بچ جائے گا، اور ساتھ ہی مقذوف بھی حد زنا سے محفوظ رہے گا کیونکہ گواہ عادل نہیں ہیں۔ البتہ کافر، یا اندھے، یا غلام، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ گواہ پیش کر کے قاذف سزا سے نہیں بچ سکتا۔ مگر امام شافعی کہتے ہیں کہ قاذف اگر فاسق گواہ پیش کرے تو وہ اور اس کے گواہ سب حد کے مستحق ہوں گے۔ اور یہی رائے امام مالک کی بھی ہے۔ اس معاملے میں حنفیہ کا مسلک ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ گواہ اگر عادل ہوں تو قاذف جرم قذف سے بری ہوجائے گا اور مقذوف پر جرم زنا ثابت ہوجائے گا۔ لیکن اگر گواہ عادل نہ ہوں تو قاذف کا قذف، اور مقذوف کا فعل زنا، اور گواہوں کا صدق و کذب، ساری ہی چیسیں مشکوک قرار پائیں گی اور شک کی بنا پر کسی کو بھی حد کا مستوجب قرار نہ دیا جاسکے گا۔
9
جو شخص ایسی شہادت پیش نہ کرسکے جو اسے جرم قذف سے بری کرسکتی ہو، اس کے لیے قرآن نے تین حکم ثابت کیے ہیں ایک یہ کہ
80
کوڑے لگائے جائیں۔ دوسرے یہ کہ اس کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے۔ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہے۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْ ا مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَسْلَحُوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کریں اور اصلاح کرین کہ اللہ غفور اور رحیم ہے)۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فقرے میں توبہ اور اصلاح سے جس معافی کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق ان تینوں احکام میں سے کس کے ساتھ ہے۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ پہلے حکم سے اس کا تعلق نہیں، یعنی توبہ سے حد ساقط نہ ہوگی اور مجرم کو سزائے تازیانہ بہر حال دی جائے گی۔ فقہاء اس پر بھی متفق ہیں کہ اس معافی تعلق آخری حکم سے ہے، یعنی توبہ اور اصلاح کے بعد مجرم فاسق نہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا۔ (اس میں اختلاف صرف اس پہلو سے ہے کہ آیا مجرم نفس قذف سے فاسق ہوتا ہے یا عدالتی فیصلہ صادر ہونے کے بعد فاسق قرار پاتا ہے۔ امام شافعی اور لیث بن سعد کے نزدیک وہ نفس قذف سے فاسق ہوجاتا ہے اس لیے وہ اسی وقت سے اس کو مردود الشہادت قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام مالک کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلہ نافذ ہوجانے کے بعد فاسق ہوتا ہے، اس لیے وہ نفاذ حکم سے پہلے تک اس کو مقبول الشہادت سمجھتے ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ مجرم کا عند اللہ فاسق ہونا نفس قذف کا نتیجہ ہے اور عند الناس فاسق ہونا اس پر موقوف ہے کہ عدالت میں اس کا جرم ثابت ہو اور وہ سزا پا جائے)۔ اب رہ جاتا ہے بیچ کا حکم، یعنی یہ کہ " قاذف کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے "۔ فقہاء کے درمیان اس پر بڑا اختلاف واقع ہوگیا ہے کہ آیا اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوْا کے فقرے کا تعلق اس حکم سے بھی ہے یا نہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس فقرے کا تعلق صرف آخری حکم سے ہے، یعنی جو شخص توبہ اور اصلاح کرلے گا وہ عند اللہ اور عند الناس فاسق نہ رہے گا، لیکن پہلے دونوں حکم اس کے باوجود بر قرار رہیں گے، یعنی مجرم پر حد جاری کی جائے گی اور وہ ہمیشہ کے لیے مردود الشہادت بھی رہے گا۔ اس گروہ میں قاضی شریح، سعید بن مُسَّٰب، سعید بن جبیر، حسن بصری، ابراہیم نخعی، ابن سیرین، مکْحول، عبدالرحمٰن بن زید، ابو حنیفہ، ابو یوسف، زُفَر، محمد، سُفْیان ثوری اور حسن بن صالح جیسے اکابر شامل ہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اِلَّا الَّذِیْنَ تَبُوْا کا تعلق پہلے حکم سے تو نہیں ہے مگر آخری دونوں حکموں سے ہے، یعنی توبہ کے بعد قذف کے سزا یافتہ مجرم کی شہادت بھی قبول کی جائے گی اور وہ فاسق بھی نہ شمار ہوگا۔ اس گروہ میں عطاء، طاؤس، مجاہد، شعبِی، قاسم بن محمد، سالم، زُہری، عِکْرِمَہ، عمر بن العزیز، ابن ابی نجیح، سلیمان بن یسار، مُسْرُوق، ضحاک، مالک بن اَنَس، عثمان البتّی، لیث بن سعد، شافعی، احمد بن حنبل اور ابن جریر طبری جیسے بزرگ شامل ہیں۔ یہ لوگ اپنی تائید میں دوسرے دلائل کے ساتھ حضرت عمر ؓ کے اس فیصلے کو بھی پیش کرتے ہیں جو انہوں نے مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے میں کیا تھا، کیونکہ اس کی بعض روایت میں یہ ذکر ہے کہ حد جاری کرنے کے بعد حضرت عمر ؓ نے ابو بکرہ اور ان کے دونوں ساتھیوں سے کہا اگر تم توبہ کرلو (یا " اپنے جھوٹ کا اقرار کرلو ") تو میں آئندہ تمہاری شہادت قبول کروں گا ورنہ نہیں۔ دونوں ساتھیوں نے اقرار کرلیا، مگر ابو بکرہ اپنے قول پر قائم رہے۔ بظاہر یہ ایک بڑی قوی تائید معلوم ہوتی ہے، لیکن مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے کی جو روداد ہم پہلے درج کرچکے ہیں اس پر گور کرنے سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ اس نظیر سے اس مسئلے میں استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ وہاں نفس فعل متفق علیہ تھا اور خود مغیرہبن شعبہ کو بھی اس سے انکار نہ تھا۔ بحث اس میں تھی کہ عورت کون تھی۔ مغیرہ بن شعبہ کہتے تھے کہ وہ ان کی اپنی بیوی تھیں جنہیں یہ لوگ ام جمیل سمجھ بیٹھے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہوگئی تھی کہ حضرت مغیرہ کی بیوی اور ام جمیل باہم اس حد تک مشابہ تھیں کہ واقعہ جتنی روشنی میں جتنے فاصلے سے دیکھا گیا اس میں یہ غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ عورت ام جمیل ہے۔ مگر قرائن سارے کے سارے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں تھے اور خود استغاثے کا بھی ایک گواہ اقرار کرچکا تھا کہ عورت صاف نظر نہ آتی تھی۔ اسی بنا پر حضرت عمر ؓ نے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں فیصلہ دیا اور ابو بکرہ کو سزا دینے کے بعد وہ بات کہی جو مذکورہ بالا روایتوں میں منقول ہوئی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کا منشا در اصل یہ تھا کہ تم لوگ مان لو کہ تم نے بےجا بدگمانی کی تھی اور آئندہ کے لیے ایسی بد گمانیوں کی بنا پر لوگوں کے خلاف الزامات عائد کرنے سے توبہ کرو، ورنہ آئندہ تمہاری شہادت کبھی قبول نہ کی جائے گی۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ جو شخص صریح جھوٹا ثابت ہوجائے وہ بھی حضرت عمر ؓ کے نزدیک توبہ کر کے مقبول الشہادت ہوسکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں پہلے گروہ ہی کی رائے زیادہ وزنی ہے۔ آدمی کی توبہ کا حال خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ ہمارے سامنے جو شخص توبہ کرے گا ہم اسے اس حد تک تو رعایت دے سکتے ہیں کہ اسے فاسق کے نام سے یاد نہ کریں، لیکن اس حد تک رعایت نہیں دے سکتے کہ جس کی زبان کا اعتبار ایک دفعہ جاتا رہا ہے اس پر پھر محض اس لیے اعتبار کرنے لگیں کہ وہ ہمارے سامنے توبہ کر رہا ہے۔ علاوہ بریں خود قرآن کی عبادت کا انداز بیان بھی یہی بتارہا ہے کہ اِلَّذِیْنَ تَابُوْ ا کا تعلق صرف اولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ سے ہے۔ اس لیے کہ عبارت میں پہلی وہ باتیں حکم کے الفاظ میں فرمائی گئی ہیں ان کو اسی کوڑے مارو "، " اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو "۔ اور تیسری بات خبر کے الفاظ میں ارشاد ہوئی ہے " وہ خود ہی فاسق ہیں "۔ اس تیسری بات کے بعد متصلاً یہ فرمانا کہ " سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کرلیں "، خود ظاہر کردیتا ہے کہ یہ استثناء آخری فقرہ خبر یہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پہلے دو محکمی فقروں سے۔ تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ استثناء آخری فقرے تک محدود نہیں ہے، تو پھر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ " شہادت قبول نہ کرو " کے فقرے تک پہنچ کر رک کیسے گیا، " اسّی کوڑے مارو " کے فقرے تک بھی کیوں نہ پہنچ گیا۔
10
سوال کیا جاسکتا ہے کہ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوا کا استثنا آخر پہلے حکم سے بھی متعلق کیوں نہ مان لیا جائے ؟ قذف آخر ایک قسم کی توہین ہی تو ہے۔ ایک آدمی اس کے بعد اپنا قصور مان لے، مقذوف سے معافی مانگ لے اور آئندہ کے لیے اس حرکت سے توبہ کرلے تو آخر کیوں نہ اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ اللہ تعالیٰ خود حکم بیان کرنے کے بعد فرما رہا ہے اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا ...... فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرُرَّ حِیْمُ۔ یہ تو ایک عجیب بات ہوگی کہ خدا معاف کر دے اور بندے معاف نہ کریں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ توبہ دراصل ت و ب ۃ کے تلفظ کا نام نہیں ہے بلکہ دل کے احساس ندامت اور عزم اصلاح اور رجوع الی الخیر کا نام ہے اور اس چیز کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے توبہ سے دنیوی سزائیں معاف نہیں ہوتیں بلکہ صرف اخروی سزا معاف ہوتی ہے، اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں تو تم انہیں چھوڑ دو ، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ توبہ کرلیں گے میں ان کے حق میں غفور و رحیم ہوں۔ اگر توبہ سے دنیوی سزائیں بھی معاف ہونے لگیں تو آخر وہ کونسا مجرم ہے جو سزا سے بچنے کے لیے توبہ نہ کرے گا ؟
11
یہ بھی سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کا اپنے الزام کے ثبوت میں شہادت نہ لا سکنا لازماً یہی معنی تو نہیں رکھتا کہ وہ جھوٹا ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کا الزام واقعی صحیح ہو اور وہ ثبوت مہیا کرنے میں ناکام رہے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اسے صرف ثبوت نہ دے سکنے کی بنا پر فاسق ٹھہرایا جائے، اور وہ بھی عند الناس ہی نہیں عند اللہ بھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک شخص نے اگر اپنی آنکھوں سے بھی کسی کو بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو پھر بھی وہ اس کا چرچا کرنے اور شہادت کے بغیر اس پر الزام عائد کرنے میں گنہگار ہے شریعت الٰہی یہ نہیں چاہتی ایک شخص اگر ایک گوشے میں نجاست لئے بیٹھا ہو تو دوسرا شخص اسے اٹھا کر سارے معاشرے میں پھیلانا شروع کردے۔ اس نجاست کی موجودگی کا اگر اس کو علم ہے تو اس کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ یا اس کو جہاں وہ پڑی ہے وہیں پڑا رہنے دے، یا پھر اس کی موجودگی کا ثبوت دے تاکہ حکومت اسلامی کے حکام اسے صاف کردیں۔ ان دو راستوں کے سوا کوئی تیسرا راستہ اس کے لیے نہیں ہے۔ اگر وہ پبلک میں چرچا کرے گا تو محدود گندگی کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا مجرم ہوگا۔ اور اگر وہ قابل اطمینان شہادت کے بغیر حکام تک معاملہ لے جائے گا تو حکام اس گندگی کو صاف نہ کرسکیں گے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ اس مقدمے کی ناکامی گندگی کی اشاعت کا سبب بھی بنے گی اور بد کاروں میں جرأت بھی پیدا کر دے گی۔ اسی لیے ثبوت اور شہادت کے بغیر قذف کا ارتکاب کرنے والا بہرحال فاسق ہے خواہ وہ اپنی جگہ سچا ہی کیوں نہ ہو۔
12
حد قذف کے بارے میں فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ قاذف کو زانی کی بہ نسبت ہلکی مار ماری جائے۔ یعنی تازیانے تو
80
ہی ہوں، مگر ضرب اتنی سخت نہ ہونی چاہیے جتنی زانی کو لگائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ جس الزام کے قصور میں اسے سزا دی جا رہی ہے اس میں اس کا جھوٹا ہونا بہرحال یقینی نہیں ہے۔
13
تکرار قذف کے بارے میں حنفیہ اور جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ قاذف نے سزا پانے سے پہلے یا سزا کے دوران میں خواہ کتنی ہی مرتبہ ایک شخص پر الزام لگایا ہو، اس پر ایک ہی حد جاری کی جائے گی۔ اور اگر اجرائے حد کے بعد وہ اپنے سابق الزام ہی کی تکرار کرتا رہے تو جو حد اسے لگائی جا چکی ہے وہی کافی ہوگی۔ البتہ اگر اجرائے حد کے بعد وہ اس شخص پر ایک نیا الزام زنا عائد کر دے تو پھر نئے سرے سے مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ مغیرہ بن شعبہ کے مقدمہ میں سزا پانے کے بعد ابو بکرہ کھلے بندوں کہتے رہے کہ " میں شہادت دیتا ہوں کہ مغیرہ نے زنا کا ارتکاب کیا تھا "۔ حضرت عمر ؓ نے ارادہ کیا کہ ان پر پھر مقدمہ قائم کریں۔ مگر چونکہ وہ سابق الزام ہی کو دوہرا رہے تھے اس لیے حضرت علی ؓ نے رائے دی کہ اس پر دوسرا مقدمہ نہیں لایا جاسکتا، اور حضرت عمر ؓ نے ان کی رائے قبول کرلی۔ اس کے بعد فقہاء میں اس بات پر قریب قریب اتفاق ہوگیا کہ سزا یافتہ قاذف کو صرف نئے الزام ہی پر پکڑا جاسکتا ہے، سابق الزام کے اعادے پر نہیں۔
14
قذف جماعت کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص بہت سے لوگوں پر بھی الزام لگائے، خواہ ایک لفظ میں یا الگ الگ الفاظ میں، اس پر ایک ہی حد لگائی جائے گی الّا یہ کہ حد لگنے کے بعد وہ پھر کسی نئے قذف کا ارتکاب کرے۔ اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں " جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں " اس سے معلوم ہوا کہ ایک فرد ہی نہیں ایک جماعت پر الزام لگانے والا بھی صرف ایک ہی حد کا مستحق ہوتا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ زنا کا کوئی الزام ایسا نہیں ہوسکتا جو کم از کم دو شخصوں پر نہ لگتا ہو۔ مگر اس کے باوجود شارع نے ایک ہی حد کا حکم دیا، عورت پر الزام کے لیے الگ اور مرد پر الزام کے لیے الگ حد کا حکم نہیں دیا۔ بخلاف اس کے امام شافعی کہتے ہیں کہ ایک جماعت پر الزام لگانے والا خواہ ایک لفظ میں الزام لگائے یا الگ الگ الفاظ میں، اس پر ہر شخص کے لیے الگ الگ پوری حد لگائی جائے گی۔ یہ رائے عثمان البتّی کی بھی ہے۔ اور ابن ابی لیلیٰ کا قول، جس میں شعبی اور اوزاعی بھی ان کے ہم نوا ہیں یہ ہے کہ ایک لفظ میں پوری جماعت کو زانی کہنے والا ایک حد کا مستحق ہے اور الگ الگ الفاظ میں یہ ایک کو کہنے والا ہر ایک کے لیے الگ حد کا مستحق۔
Top