Tafheem-ul-Quran - An-Noor : 9
وَ الْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَیْهَاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالْخَامِسَةَ : اور اَنَّ : یہ کہ غَضَبَ اللّٰهِ : اللہ کا غضب عَلَيْهَآ : اس پر اِنْ : اگر كَانَ : وہ ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اُس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ (اپنے الزام میں)سچا ہو۔ 7
سورة النُّوْر 7 یہ آیات پچھلی آیات کے کچھ مدت بعد نازل ہوئی ہیں۔ حد قذف کا حکم جب نازل ہوا تو لوگوں میں یہ سوال پیدا ہوگیا کہ غیر مرد اور عورت کی بد چلنی دیکھ کر تو آدمی صبر کرسکتا ہے، گواہ موجود نہ ہوں تو زبان پر قفل چڑھا لے اور معاملے کو نظر انداز کر دے۔ لیکن اگر وہ خود اپنی بیوی کی بد چلنی دیکھ لے تو کیا کرے ؟ قتل کر دے تو الٹا سزا کا مستوجب ہو۔ گواہ ڈھونڈنے جائے تو ان کے آنے تک مجرم کب ٹھہرا رہے گا۔ صبر کرے تو آخر کیسے کرے۔ طلاق دے کر عورت کو رخصت کرسکتا ہے، مگر نہ اس عورت کو کسی قسم کی مادی یا اخلاقی سزا ملی نہ اس کے آشنا کو۔ اور اگر اسے ناجائز حمل ہو تو غیر کا بچہ الگ گلے پڑا۔ یہ سوال ابتداءً تو حضرت سعد بن عبادہ نے ایک فرضی سوال کی حیثیت میں پیش کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں اگر خدا نخواستہ اپنے گھر میں یہ معاملہ دیکھوں تو گواہوں کی تلاش میں نہیں جاؤں گا بلکہ تلوار سے اسی وقت معاملہ طے کر دوں گا (بخاری و مسلم)۔ لیکن تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ بعض ایسے مقدمات عملاً پیش آگئے جن میں شوہروں نے اپنی آنکھوں سے یہ معاملہ دیکھا اور نبی ﷺ کے پاس اس کی شکایت لے گئے۔ عبد اللہ بن مسعود اور ابن عمر ؓ کی روایات ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (غالباً عویمر عجلانی) نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ، اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے اور منہ سے بات نکالے تو آپ حد قذف جاری کردیں گے، قتل کر دے تو آپ اسے قتل کردیں گے، چپ رہے تو غیظ میں مبتلا رہے۔ آخر وہ کیا کرے ؟ اس پر حضور ﷺ نے دعا کی کہ خدایا، اس مسئلے کا فیصلہ فرما (مسلم، بخاری، ابو داؤد، احمد، نسائی)۔ ابن عباس کی روایات ہے کہ ہلال بن امیہ نے آ کر اپنی بیوی کا معاملہ پیش کیا جسے انہوں نے بچشم خود ملوث دیکھا تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا " ثبوت لاؤ، ورنہ تم پر حد قذف جاری ہوگی "۔ صحابہ میں اس پر عام پریشانی پھیل گئی، اور ہلال نے کہا اس خدا کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے، میں بالکل صحیح واقعہ عرض کر رہا ہوں جسے میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں ایسا حکم نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ بچا دے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری، احمد، ابو داؤد)۔ اس میں جو طریق تصفیہ تجویز کیا گیا ہے اسے اسلامی قانون کی اصطلاح میں " لِعان " کہا جاتا ہے۔ یہ حکم آجانے کے بعد نبی ﷺ نے جن مقدمات کا فیصلہ فرمایا ان کی مفصل رودادیں کتب حدیث میں منقول ہیں اور وہی لعان کے مفصل قانون اور ضابطہ کارروائی کا ماخذ ہیں۔ بلال بن امیہ کے مقدمے کی جو تفصیلات صحاح ستہ اور مسند احمد اور تفسیر ابن جریر میں ابن عباس اور انس بن مالک ؓ سے منقول ہوئی ہیں ان میں بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ہلال اور ان کی بہوٰ ، دونوں عدالت نبوی میں حاضر کیے گئے۔ حضور ﷺ نے پہلے حکم خداوندی سنایا۔ پھر فرمایا " خوب سمجھ لو کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت چیز ہے "۔ ہلال نے عرض کیا میں نے اس پر بالکل صحیح الزام لگایا ہے۔ عورت نے کہا یہ بالکل جھوٹ ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا " اچھا، تو ان دونوں میں ملاعنَت کرائی جائے "۔ چناچہ پہلے ہلال اٹھے اور انہوں نے حکم قرآنی کے مطابق قسمیں کھانی شروع کیں ............ نبی ﷺ اس دوران میں بار بار فرماتے رہے " اللہ کو معلوم ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے، پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا ؟ " پانچویں قسم سے پہلے حاضرین نے ہلال سے کہا " خدا سے ڈرو، دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ یہ پانچویں قسم تم پر عذاب واجب کر دے گی "۔ مگر ہلال نے کہا جس خدا نے یہاں میری پیٹھ بچائی ہے وہ آخرت میں بھی مجھے عذاب نہیں دے گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے پانچویں قسم بھی کھالی۔ پھر عورت اٹھی اور اس نے بھی قسمیں کھانی شروع کیں۔ پانچویں قسم سے پہلے اسے بھی روک کر کہا گیا کہ " خدا سے ڈر، آخرت کے عذاب کی بہ نسبت دنیا کا عذاب برداشت کرلینا آسان ہے۔ یہ آخری قسم تجھ پر عذاب الٰہی کو واجب کر دے گی "۔ یہ سن کر وہ کچھ دیر رکتی اور جھجکتی رہی۔ لوگوں نے سمجھا اعتراف کرنا چاہتی ہے مگر پھر کہنے لگی " میں ہمیشہ کے لیے اپنے قبیلے کو رسوا نہیں کروں گی " اور پانچویں قسم بھی کھا گئی۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور فیصلہ فرمایا کہ اس کا بچہ (جو اس وقت پیٹ میں تھا) ماں کی طرف منسوب ہوگا، باپ کا نہیں پکارا جائے گا، کسی کو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگانے کا حق نہ ہوگا، جو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگائے گا وہ حد قذف کا مستحق ہوگا، اور اس کو زمانۂ عدت کے نفقے اور سکونت کا کوئی حق ہلال پر حاصل نہیں ہے کیونکہ یہ طلاق یا وفات کے بغیر شوہر سے جدا کی جا رہی ہے۔ پھر آپ نے لوگوں سے کہا کہ اس کے ہاں جب بچہ ہو تو دیکھو، وہ کس پر گیا ہے۔ اگر اس اس شکل کا ہو تو ہلال کا ہے، اور اگر اس صورت کا ہو تو اس شخص کا ہے جس کے بارے میں اس پر الزام لگایا گیا ہے۔ وضع حمل کے بعد دیکھا گیا کہ وہ مؤخر الذکر صورت کا تھا، اس پر حضور ﷺ نے فرمایا لولا الایمان (یا بروایت دیگر لو لا مضیٰ من کتاب اللہ) لکان لی ولھا شان، یعنی اگر قسمیں نہ ہوتیں (یا خدا کی کتاب پہلے ہی فیصلہ نہ کرچکی ہوتی) تو میں اس عورت سے بری طرح پیش آتا۔ عویمر عجلانی کے مقدمے کی روداد سہل بن سعد ساعدی اور ابن عمر ؓ سے بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی ابن ماجہ اور مسند احمد میں ملتی ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ عویمر اور ان کی بیوی، دونوں مسجد نبوی میں بلائے گئے۔ مُلاعَنَت سے پہلے حضور ﷺ نے ان کو بھی تنبیہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا " اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا " ؟ جب کسی نے توبہ نہ کی تو دونوں میں ملاعنت کرائی گئی۔ اس کے بعد عویمر نے کہا " یا رسول اللہ اب اگر میں اس عورت کو رکھوں تو جھوٹا ہوں "۔ یہ کہہ کر انہوں نے تین طلاقیں دے دیں بغیر اس کے کہ حضور ﷺ نے ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہوتا۔ سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ان طلاقوں کو حضور ﷺ نے نافذ فرما دیا اور ان کے درمیان تفریق کرا دی اور فرمایا کہ " یہ تفریق ہے ہر ایسے جوڑے کے معاملے میں جو باہم لعان کرے "۔ اور سنت یہ قائم ہوگئی کہ لعان کرنے والے زوجین کو جدا کردیا جائے، پھر وہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ مگر ابن عمر صرف اتنا بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی۔ سہل بن سعد یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ عورت حاملہ تھی اور عویمر نے کہا کہ یہ حمل میرا نہیں ہے۔ اس بنا پر بچہ ماں کی طرف منسوب کیا گیا اور سنت یہ جاری ہوئی کہ اس طرح کا بچہ ماں سے میراث پائے گا اور ماں ہی اس سے میراث پائے گی۔ ان دو مقدموں کے علاوہ متعدد روایات ہم کو کتب حدیث میں ایسی بھی ملتی ہیں جن میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ کن اشخاص کے مقدموں کی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض ان ہی دونوں مقدموں سے تعلق رکھتی ہوں، مگر بعض میں کچھ دوسرے مقدمات کا بھی ذکر ہے اور ان سے قانون لعان کے بعض اہم نکات پر روشنی پڑتی ہے۔ ابن عمر ایک مقدمے کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زوجین جب لعان کرچکے تو نبی ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کردی (بخاری، مسلم، نسائی، احمد، ابن جریر)۔ ابن عمر کی ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا گیا۔ پھر اس نے حمل سے انکار کیا۔ نبی ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کردی اور فیصلہ فرمایا کہ بچہ صرف ماں کا ہوگا (صحاح ستہ اور احمد)۔ ابن عمر ہی کی ایک اور روایت ہے کہ ملاعنت کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا " تمہارا حساب اب اللہ کے ذمہ ہے، تم میں سے ایک بہرحال جھوٹا ہے "۔ پھر آپ نے مرد سے فرمایا لا سبیل لک علیھا (یعنی اب یہ تیری نہیں رہی۔ نہ تو اس پر کوئی حق جتا سکتا ہے، نہ کسی قسم کی دست درازی یا دوسری منتقمانہ حرکت اس کے خلاف کرنے کا مجاز ہے)۔ مرد نے کہا یا رسول اللہ اور میرا مال (یعنی وہ مہر تو مجھے دلوائیے جو میں نے اسے دیا تھا)۔ فرمایا لا مال لک، ان کنت صدقت علیھا فھو بما استحلت من فوجھا و ان کنت کذبت علیھا فذاک ابعد و ابعد لک منھا (یعنی مال واپس لینے کا تجھے کوئی حق نہیں ہے، اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے تو وہ مال اس لذت کا بدل ہے جو تو نے حلال کر کے اس سے اٹھائی، اور اگر تو نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو مال تجھ سے اور بھی زیادہ دور چلا گیا، وہ اس کی بہ نسبت تجھ سے زیادہ دور ہے) بخاری، مسلم، ابو داؤد۔ دارقطنی نے علی بن ابی طالب اور ابن مسعود ؓ کا قول نقل کیا ہے " سنت یہ مقرر ہوچکی ہے کہ لعان کرنے والے زوجین پھر کبھی باہم جمع نہیں ہو سکتے " (یعنی ان کا دوبارہ نکاح پھر کبھی نہیں ہو سکتا)۔ اور دارقطنی ہی حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ یہ دونوں پھر کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ قبیصہ بن ذؤَیب کی روایت ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے حمل کو ناجائز قرار دیا، پھر اعتراف کرلیا کہ یہ حمل اس کا اپنا ہے، پھر وضع حمل کے بعد کہنے لگا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے۔ معاملہ حضرت عمر کی عدالت میں پیش ہوا۔ آپ نے اس پر حد قذف جاری کی اور فیصلہ کیا کہ بچہ اسی کی طرف منسوب ہوگا (دار قطنی، بیہقی)۔ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا میری ایک بیوی ہے جو مجھے بہت محبوب ہے۔ مگر اس کا حال یہ ہے کہ کسی ہاتھ لگانے والے کا ہاتھ نہیں جھٹکتی (واضح رہے کہ یہ کنایہ تھا جس کے معنی زنا کے بھی ہو سکتے ہیں اور زنا سے کم تر درجے کی اخلاقی کمزوری کے بھی)۔ نبی ﷺ نے فرمایا طلاق دیدے۔ اس نے کہا مگر میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ فرمایا تو اسے رکھے رہ (یعنی آپ نے اس سے اس کنایے کی تشریح نہیں کرائی اور اس کے قول کو الزام زنا پر محمول کر کے لعان کا حکم نہیں دیا)۔ نسائی۔ ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نے حاضر ہو کر عرض کیا میری بیوی نے کالا لڑکا جنا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ میرا ہے (یعنی محض لڑکے کے رنگ نے اسے شبہ میں ڈالا تھا ورنہ بیوی پر زنا کا الزام لگانے کے لیے اس کے پاس کوئی اور وجہ نہ تھی)۔ آپ نے پوچھا تیرے پاس کچھ اونٹ تو ہوں گے۔ اس نے عرض کیا ہاں۔ آپ نے پوچھا ان کے رنگ کیا ہیں ؟ کہنے لگا سرخ۔ آپ نے پوچھا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے ؟ کہنے لگا جی ہاں، بعض ایسے بھی ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ رنگ کہاں سے آیا ؟ کہنے لگا شاید کوئی رگ کھینچ لے گئی (یعنی ان کے باپ دادا میں سے کوئی اس رنگ کا ہوگا اور اسی کا اثر ان میں آگیا)۔ فرمایا " شاید اس بچے کو بھی کوئی رگ کھینچ لے گئی " اور آپ نے اسے نفی وَلَد (بچے کے نسب سے انکار) کی اجازت نہ دی (بخاری، مسلم، احمد، ابو داؤد)۔ ابوہریرہ کی ایک اور روایت ہے کہ نبی ﷺ نے آیت لعان پر کلام کرتے ہوئے فرمایا " جو عورت کسی خاندان میں ایسا بچہ گھسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے (یعنی حرام کا پیٹ رکھوا کر شوہر کے سر منڈھ دے) اس کا اللہ سے کچھ واسطہ نہیں، اللہ اس کو جنت میں ہرگز داخل نہ کرے گا۔ اور جو مرد اپنے بچے کے نسب سے انکار کرے حالانکہ بچہ اس کو دیکھ رہا ہو، اللہ قیامت کے روز اس سے پردہ کرے گا اور اسے تمام اگلی پچھلی خلق کے سامنے رسوا کر دے گا (ابو داؤد، نسائی، دارمی)۔ آیت لعان اور یہ روایات و نظائر اور شریعت کے اصول عامہ اسلام میں قانون لعان کے وہ مآخذ ہیں جن کی روشنی میں فقہاء نے لعان کا مفصل ضابطہ بنایا ہے۔ اس ضابطے کی اہم دفعات یہ ہیں 1) جو شخص بیوی کی بد کاری دیکھے اور لعان کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے قتل کا مرتکب ہوجائے اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ اس کو خود حد جاری کرنے کا حق نہ تھا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے فعل پر کوئی مواخذہ ہوگا بشرطیکہ اس کی صداقت ثابت ہوجائے (یعنی یہ کہ فی الواقع اس نے زنا ہی کے ارتکاب پر یہ فعل کیا)۔ امام احمد اور اسحاق بن راہَوَیہ کہتے ہیں کہ اسے اس امر کے دو گواہ لانے ہوں گے کہ قتل کا سبب یہی تھا۔ مالکیہ میں سے ابن القاسم اور ابن حبیب اس پر مزید شرط یہ لگاتے ہیں کہ زانی جسے قتل کیا گیا وہ شادی شدہ ہو، ورنہ کنوارے زانی کو قتل کرنے پر اس سے قصاص لیا جائے گا۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اس کو قصاص سے صرف اس صورت میں معاف کیا جائے گا جبکہ وہ زنا کے چار گواہ پیش کرے، یا مقتول مرنے سے پہلے خود اس امر کا اعتراف کرچکا ہو کہ وہ اس کی بیوی سے زنا کر رہا تھا، اور مزید یہ کہ مقتول شادی شدہ ہو (نیل الاوطار، ج 6، ص 2282) لعان گھر بیٹھے آپس ہی میں نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے عدالت میں جانا ضروری ہے۔ 3) لعان کے مطالبے کا حق صرف مرد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ عورت بھی عدالت میں اس کا مطالبہ کرسکتی ہے جبکہ شوہر اس پر بد کاری کا الزام لگائے یا اس کے بچے کا نسب تسلیم کرنے سے انکار کرے۔ 4) کیا لعان ہر زوج اور زوجہ کے درمیان ہوسکتا ہے یا اس کے لیے دونوں میں کچھ شرائط ہیں ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جس کی قسم قانونی حیثیت سے معتبر ہو اور جس کو طلاق دینے کا اختیار ہو وہ لعان کرسکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک صرف عاقل اور بالغ ہونا اہلیت لعان کے لیے کافی ہے خواہ زوجین مسلم ہوں یا کافر، غلام ہوں یا آزاد، مقبول الشہادت ہوں یا نہ ہوں، اور مسلم شوہر کی بیوی مسلمان ہو یا ذمی۔ قریب قریب یہی رائے امام مالک اور امام احمد کی بھی ہے۔ مگر حنفیہ کہتے ہیں کہ لعان صرف ایسے آزاد مسلمان زوجین ہی میں ہوسکتا ہے جو قذف کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہوں۔ اگر عورت اور مرد دونوں کافر ہوں، یا غلام ہوں، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ ہوں تو ان کے درمیان لعان نہیں ہو سکتا۔ مزید براں اگر عورت کبھی اس سے پہلے حرام یا مشتبہ طریقے پر کسی مرد سے ملوث ہوچکی ہو تب بھی لعان درست نہ ہوگا۔ یہ شرطیں حنفیہ نے اس بنا پر لگائی ہیں کہ ان کے نزدیک لعان کے قانون اور قذف کے قانون میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ غیر آدمی اگر قذف کا مرتکب ہو تو اس کے لیے حد ہے اور شوہر اس کا ارتکاب کرے تو وہ لعان کر کے چھوٹ سکتا ہے۔ باقی تمام حیثیتوں سے لعان اور قذف ایک ہی چیز ہے۔ علاوہ بریں حنفیہ کے نزدیک چونکہ لعان کی قسمیں شہادت کی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے وہ کسی ایسے شخص کو اس کی اجازت نہیں دیتے جو شہادت کا اہل نہ ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں حنفیہ کا مسلک کمزور ہے اور صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی نے فرمائی ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے قذف زوجہ کے مسئلے کو آیت قذف کا ایک جز نہیں بنایا ہے بلکہ اس کے لیے الگ قانون بیان کیا ہے، اس لیے اس کو قانون قذف کے ضمن میں لا کر وہ تمام شرائط اس میں شامل نہیں کی جا سکتیں جو قذف کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ آیت لعان ہی سے اخذ کرنا چاہیے نہ کہ آیت قذف سے۔ مثلاً آیت قذف میں سزا کا مستحق وہ شخص ہے جو پاک دامن عورتوں (محصنات) پر الزام لگائے۔ لیکن آیت لعان میں پاک دامن بیوی کی شرط کہیں نہیں ہے۔ ایک عورت چاہے کبھی گناہ گار بھی رہی ہو، اگر بعد میں وہ توبہ کر کے کسی شخص سے نکاح کرلے اور پھر اس کا شوہر اس پر ناحق الزام لگائے تو آیت لعان یہ نہیں کہتی کہ اس عورت پر تہمت رکھنے کی یا اس کی اولاد کے نسب سے انکار کردینے کی شوہر کو کھلی چھٹی دے دو کیونکہ اس کی زندگی کبھی داغ دار رہ چکی ہے۔ دوسری اور اتنی ہی اہم وجہ یہ ہے کہ قذف زوجہ اور قذف اجنبیہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ان دونوں کے بارے میں قانون کا مزاج ایک نہیں ہو سکتا۔ غیر عورت سے آدمی کو کوئی بڑی سے بڑی با وقعت دلچسپی ہو سکتی ہے تو جس پہ کہ معاشرے کو بد اخلاقی سے پاک دیکھنے کا جوش اسے لاحق ہو۔ اس کے بر عکس اپنی بیوی سے آدمی کا تعلق ایک طرح کا نہیں کئی طرح کا ہے اور بہت گہرا ہے۔ وہ اس کے نسب اور اس کے مال اور اس کے گھر کی امانت دار ہے۔ اس کی زندگی کی شریک ہے۔ اس کے رازوں کی امین ہے۔ اس کے نہایت گہرے اور نازک جذبات اس سے وابستہ ہیں۔ اس کی بد چلنی سے آدمی کی غیرت اور عزت پر، اس کے مفاد پر، اور اس کی آئندہ نسل پر سخت چوٹ لگتی ہے۔ یہ دونوں معاملے آخر ایک کس حیثیت سے ہیں کہ دونوں کے لیے قانون کا مزاج ایک ہی ہو۔ کیا ایک ذمی، یا ایک غلام، یا ایک سزا یافتہ آدمی کے لیے اس کی بیوی کا معاملہ کسی آزاد اہل شہادت مسلمان کے معاملے سے کچھ بھی مختلف یا اہمیت اور نتائج میں کچھ بھی کم ہے ؟ اگر وہ اپنی آنکھوں سے کسی کے ساتھ اپنی بیوی کو ملوث دیکھ لے، یا اس کو یقین ہو کہ اس کی بیوی غیر سے حاملہ ہے تو کون سی معقول وجہ ہے کہ اسے لعان کا حق نہ دیا جائے ؟ اور یہ حق اس سے سلب کرنے کے بعد ہمارے قانون میں اس کے لیے اور کیا چارہ کار ہے ؟ قرآن مجید کا منشا تو صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شادی شدہ جوڑوں کو اس پیچیدگی سے نکالنے کی ایک صورت پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں بیوی کی حقیقی بد کاری یا ناجائز حمل سے ایک شوہر، اور شوہر کے جھوٹے الزام یا اولاد کے نسب سے بےجا انکار کی بدولت ایک بیوی مبتلا ہوجائے۔ یہ ضرورت صرف اہل شہادت آزاد مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے، اور قرآن کے الفاظ میں بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کو صرف ان ہی تک محدود کرنے والی ہو۔ رہا یہ استدلال کہ قرآن نے لعان کی قسموں کو شہادت قرار دیا ہے اس لیے شہادت کی شرائط یہاں عائد ہوں گی، تو اس کا تقاضا پھر یہ ہے کہ اگر عادل مقبول الشہادت شوہر قسمیں کھالے اور عورت قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو عورت کو رجم کردیا جائے، کیونکہ اس کی بد کاری پر شہادت قائم ہوچکی ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس صورت میں حنفیہ رجم کا حکم نہیں لگاتے۔ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ خود بھی ان قسموں کو بعینہ شہادت کی حیثیت نہیں دیتے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود قرآن بھی ان قسموں کو شہادت کے لفظ سے تعبیر کرنے کے باوجود شہادت نہیں قرار دیتا ورنہ عورت کو چار کے بجائے آٹھ قسمیں کھانے کا حکم دیتا۔ 5) لعان محض کنایے اور استعارے یا اظہار شک و شبہ پر لازم نہیں آتا، بلکہ صرف اس صورت میں لازم آتا ہے جبکہ شوہر صریح طور پر زنا کا الزام عائد کرے یا صاف الفاظ میں بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ امام مالک اور لیث بن سعد اس پر یہ مزید شرط بڑھاتے ہیں کہ قسم کھاتے وقت شوہر کو یہ کہنا چاہیے کہ اس نے اپنی آنکھوں سے بیوی کو زنا میں مبتلا دیکھا ہے۔ لیکن یہ قید بےبنیاد ہے۔ اس کی کوئی اصل نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔ 6) اگر الزام لگانے کے بعد شوہر قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ اسے قید کردیا جائے گا اور جب تک وہ لعان نہ کرے یا اپنے الزام کا جھوٹا ہونا نہ مان لے، اسے نہ چھوڑا جائے گا، اور جھوٹ مان لینے کی صورت میں اس کو حد قذف لگائی جائے گی۔ اس کے برعکس امام مالک، شافعی، حسن بن صالح اور لیث بن سعد کی رائے یہ ہے کہ لعان سے پہلو تہی کرنا خود ہی اقرار کذب ہے اس لیے حد قذف واجب آجاتی ہے۔ 7) اگر شوہر کے قسم کھا چکنے کے بعد عورت لعان سے پہلو تہی کرے تو حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اسے قید کردیا جائے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک وہ لعان نہ کرے، یا پھر زنا کا اقرار نہ کرلے۔ دوسری طرف مذکورہ بالا ائمہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں اسے رجم کردیا جائے گا۔ ان کا استدلال قرآن کے اس ارشاد سے ہے کہ عورت سے عذاب صرف اس صورت میں دفع ہوگا جبکہ وہ بھی قسم کھالے۔ اب چونکہ وہ قسم نہیں کھاتی اس لیے لا محالہ وہ عذاب کی مستحق ہے۔ لیکن اس دلیل میں کمزوری یہ ہے کہ قرآن یہاں " عذاب " کی نوعیت تجویز نہیں کرتا بلکہ مطلقاً سزا کا ذکر کرتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ سزا سے مراد یہاں زنا ہی کی سزا ہو سکتی ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ زنا کی سزا کے لیے قرآن نے صاف الفاظ میں چار گواہوں کی شرط لگائی ہے۔ اس شرط کو محض ایک شخص کی چار قسمیں پورا نہیں کر دیتیں۔ شوہر کی قسمیں اس بات کے لیے تو کافی ہیں کہ وہ خود قذف کی سزا سے بچ جانے اور عورت پر لعان کے احکام مترتب ہو سکیں، مگر اس بات کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ان سے عورت پر زنا کا الزام ثابت ہوجائے۔ عورت کا جوابی قسمیں کھانے سے انکار شبہ ضرور پیدا کرتا ہے اور بڑا قوی شبہ پیدا کردیتا ہے، لیکن شبہات پر حدود جاری نہیں کی جا سکتیں۔ اس معاملہ کو مرد کی حد قذف پر قیاس نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس کا قذف تو ثابت ہے، جبھی تو اس کو لعان پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے برعکس عورت پر زنا کا الزام ثابت نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے اپنے اقرار یا چار یعنی شہادتوں کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔ 8) اگر لعان کے وقت عورت حاملہ ہو تو امام احمد کے نزدیک لعان بجائے خود اس بات کے لیے کافی ہے کہ مرد اس حمل سے بری الذمہ ہوجائے اور بچہ اس کا قرار نہ پائے قطع نظر اس سے کہ مرد نے حمل کو قبول کرنے سے انکار کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ مرد کا الزام زنا اور نفی حمل دونوں ایک چیز نہیں ہیں، اس لیے مرد جب تک حمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے صریح طور پر انکار نہ کرے وہ الزام زنا کے باوجود اسی کا قرار پائے گا کیونکہ عورت کے زانیہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو حمل بھی زنا ہی کا ہو۔ 9) امام مالک، امام شافعی اور امام احمد دوران حمل میں مرد کو نفی حمل کی اجازت دیتے ہیں اور اس بنیاد پر لعان کو جائز رکھتے ہیں۔ مگر امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اگر مرد کے الزام کی بنیاد زنانہ ہو بلکہ صرف یہ ہو کہ اس نے عورت کو ایسی حالت میں حاملہ پایا ہے جب کہ اس کے خیال میں حمل اس کا نہیں ہوسکتا تو اس صورت میں لعان کے معاملے کو وضع حمل تک ملتوی کردینا چاہیے، کیونکہ نس اوقات کوئی بیماری حمل کا شبہ پیدا کردیتی ہے اور در حقیقت حمل ہوتا نہیں ہے۔ 10) اگر باپ بچے کے نسب سے انکار کرے تو بالاتفاق لعان لازماً آتا ہے۔ اور اس امر میں بھی اتفاق ہے کہ ایک دفعہ بچے کو قبول کرلینے کے بعد (خواہ یہ قبول کرلینا صریح الفاظ میں ہو یا قبولیت پر دلالت کرنے والے افعال، مثلاً پیدائش پر مبارک باد لینے یا بچے کے ساتھ پدرانہ شفقت برتنے اور اس کی پرورش سے دلچسپی لینے کی صورت میں) پھر باپ کو انکار نسب کا حق نہیں رہتا، اور اگر کرے تو حد قذف کا مستحق ہوجاتا ہے۔ مگر اس امر میں اختلاف ہے کہ باپ کو کس وقت تک انکار نسب کا حق حاصل ہے۔ امام مالک کے نزدیک اگر شوہر اس زمانے میں گھر پر موجود رہا ہے جبکہ بیوی حاملہ تھی تو زمانہ حمل سے لے کر وضع حمل تک اس کے لیے انکار کا موقع ہے، اس کے بعد وہ انکار کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ اگر وہ غائب تھا اور اس کے پیچھے ولادت ہوئی تو جس وقت اسے علم ہو وہ انکار کرسکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر پیدائش کے بعد ایک دو روز کے اندر وہ انکار کرے تو لعان کر کے وہ بچے کی ذمہ داری سے بری ہوجائے گا، لیکن اگر سال دو سال بعد انکار کرے تو لعان ہوگا مگر وہ بچے کی ذمہ داری سے بری نہ ہو سکے گا۔ امام ابو یوسف کے نزدیک ولادت کے بعد، یا ولادت کا علم ہونے کے بعد چالیس دن کے اندر اندر باپ کو انکار نسب کا حق ہے، اس کے بعد یہ حق ساقط ہوجائے گا۔ مگر یہ چالیس دن کی قید بےمعنی ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام ابوحنیفہ نے فرمائی ہے کہ ولادت کے بعد یا اس کا علم ہونے کے بعد ایک دو روز کے اندر ہی انکار نسب کیا جاسکتا ہے، الا یہ کہ اس میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو جسے معقول رکاوٹ تسلیم کیا جاسکے۔ 11) اگر شوہر طلاق دینے کے بعد مطلقہ بیوی پر زنا کا الزام لگائے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک لعان نہیں ہوگا بلکہ اس پر قذف کا مقدمہ قائم کیا جائے گا، کیونکہ لعان زوجین کے لیے ہے اور مطلقہ عورت اس کی بیوی نہیں ہے۔ الا یہ کہ طلاق رجعی ہو اور مدت رجوع کے اندر وہ الزام لگائے۔ مگر امام مالک کے نزدیک یہ قذف صرف اس صورت میں ہے جبکہ کسی حمل یا بچے کا نسب قبول کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ مرد کو طلاق بائن کے بعد بھی لعان کا حق حاصل ہے کیونکہ وہ عورت کو بد نام کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود ایک ایسے بچے کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے لعان کر رہا ہے جسے وہ اپنا نہیں سمجھتا۔ قریب قریب یہی رائے امام شافعی کی بھی ہے۔ 12) لعان کے قانونی نتائج میں سے بعض متفق علیہ ہیں، اور بعض میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ متفق علیہ نتائج یہ ہیں عورت اور مرد دونوں کسی سزا کے مستحق نہیں رہتے۔ مرد بچے کے نسب کا منکر ہو تو بچہ صرف ماں کا قرار پائے گا، نہ باپ کی طرف منسوب ہوگا نہ اس سے میراث پائے گا، ماں اس کی وارث ہوگی اور وہ ماں کا وارث ہوگا۔ عورت کو زانیہ اور اس کے بچے کو ولد الزنا کہنے کا کسی کو حق نہ ہوگا، خواہ لعان کے وقت اس کے حالات ایسے ہی کیوں نہ ہوں کہ لوگوں کو اس کے زانیہ ہونے میں شک نہ رہے۔ جو شخص لعان کے بعد اس پر یا اس کے بچے پر سابق الزام کا اعادہ کرے گا وہ حد کا مستحق ہوگا۔ عورت کا مہر ساقط نہ ہوگا۔ عورت دوران عدت میں مرد سے نفقہ اور مسکن پانے کی حق دار نہ ہوگی۔ عورت اس مرد کے لیے حرام ہوجائے گی۔ اختلاف دو مسئلوں میں ہے۔ ایک یہ کہ لعان کے بعد عورت اور مرد کی علیٰحدگی کیسے ہوگی ؟ دوسرے یہ کہ لعان کی بنا پر علیٰحدہ ہوجانے کے بعد کیا ان دونوں کا پھر مل جانا ممکن ہے ؟ پہلے مسئلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ جس وقت مرد لعان سے فارغ ہوجائے اسی وقت فرقت آپ سے آپ واقع ہوجاتی ہے خواہ عورت جوابی لعان کرے نہ کرے۔ امام مالک، لیث بن سعد اور زفر کہتے ہیں کہ مرد اور عورت دونوں جب لعان سے فارغ ہوں تب فرقت واقع ہوتی ہے۔ اور امام ابو حنیفہ، ابو یوسف اور محمد کہتے ہیں کہ لعان سے فرقت آپ ہی آپ واقع نہیں ہوجاتی بلکہ عدالت کے تفریق کرانے سے ہوتی ہے۔ اگر شوہر خود طلاق دے دے تو بہتر، ورنہ حاکم عدالت ان کے درمیان تفریق کا اعلان کرے گا۔ دوسرے مسئلے میں امام مالک، ابو یوسف، زفر، سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ، شافعی، احمد بن حنبل اور حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ لعان سے جو زوجین جدا ہوئے ہوں وہ پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، دوبارہ وہ باہم نکاح کرنا بھی چاہیں تو کسی حال میں نہیں کرسکتے۔ یہی رائے حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کی بھی ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی، شعبی، سعید بن جبیر، ابوحنیفہ اور محمد رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ اگر شوہر اپنا جھوٹ مان لے اور اس پر حد قذف جاری ہوجائے تو پھر ان دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے کے لیے حرام کرنے والی چیز لعان ہے۔ جب تک وہ اس پر قائم رہیں، حرمت بھی قائم رہے گی۔ مگر جب شوہر اپنا جھوٹ مان کر سزا پا گیا تو لعان ختم ہوگیا اور حرمت بھی اٹھ گئی۔
Top