Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 6
قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
قُلْ : فرما دیں اَنْزَلَهُ : اسکو نازل کیا ہے الَّذِيْ : وہ جو يَعْلَمُ : جانتا ہے السِّرَّ : راز فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
اے محمدؐ ، ان سے کہو کہ”اِسے نازل کیا ہے اُس نے جو زمین اور آسمانوں کا بھید جانتا ہے۔ 12“ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ 13
سورة الْفُرْقَان 12 یہ وہی اعتراض ہے جو اس زمانے کے مستشرقین مغرب قرآن مجید کے خلاف پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ نبی ﷺ کے ہم عصر دشمنوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ تم بچپن میں بحیرا راہب سے جب ملے تھے اس وقت یہ سارے مضامین تم نے سیکھ لیے تھے۔ اور نہ یہ کہا کہ جوانی میں جن تجارتی سفروں کے سلسلے میں تم باہر جایا کرتے تھے اس زمانے میں تم نے عیسائی راہبوں اور یہودی ربّیوں سے یہ معلومات حاصل کی تھیں۔ اس لیے کہ ان سارے سفروں کا حال ان کو معلوم تھا۔ یہ سفر اکیلے نہیں ہوئے تھے، ان کے اپنے قافلوں کے ساتھ ہوئے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان میں کچھ سیکھ آنے کا الزام ہم لگائیں گے تو ہمارے اپنے ہی شہر میں سیکڑوں زبانیں ہم کو جھٹلا دیں گی۔ اس کے علاوہ مکہ کا ہر عام آدمی پوچھے گا کہ اگر یہ معلومات اس شخص کو بارہ تیرہ برس کی عمر ہی میں بحیرا سے حاصل ہوگئی تھیں، یا 25 برس کی عمر سے، جبکہ اس نے تجارتی سفر شروع کیے تھے، حاصل ہونی شروع ہوگئی تھیں، تو آخر یہ شخص کہیں باہر تو نہیں رہتا تھا، ہمارے ہی درمیان رہتا بستا تھا، کیا وجہ ہے کہ چالیس برس کی عمر تک اس کا یہ سارا علم چھپا رہا اور کبھی ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ایسا نہ نکلا جو اس علم کی غمازی کرتا ؟ یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ نے اتنے سفید جھوٹ کی جرأت نہ کی اور اسے بعد کے زیادہ بےحیا لوگوں کے لیے چھوڑ دیا۔ وہ جو بات کہتے تھے وہ نبوت سے پہلے کے متعلق نہیں بلکہ دعوائے نبوت کے زمانے کے متعلق تھی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ شخص ان پڑھ ہے۔ خود مطالعہ کر کے نئی معلومات حاصل کر نہیں سکتا۔ پہلے اس نے کچھ سیکھا نہ تھا۔ چالیس برس کی عمر تک ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ جانتا تھا جو آج اس کی زبان سے نکل رہی ہیں۔ اب آخر یہ معلومات آ کہاں سے رہی ہیں ؟ ان کا سرچشمہ لامحالہ کچھ اگلے لوگوں کی کتابیں ہیں جن کے اقتباسات راتوں کو چپکے چپکے ترجمہ اور نقل کرائے جاتے ہیں، انہیں کسی سے یہ شخص پڑھوا کر سنتا ہے، اور پھر انہیں یاد کر کے ہمیں دن کو سناتا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں وہ چند آدمیوں کے نام بھی لیتے تھے جو اہل کتاب تھے، پڑھے لکھے تھے، اور مکہ میں رہتے تھے، یعنی عداس (حُوَیطِب بن عبد العزّیٰ کا آزاد کردہ غلام) یَسَار (علاء بن الحضرمی کا آزاد کردہ غلام) اور جبرْ (عامر بن ربیعہ کا آزاد کردہ غلام)۔ بظاہر بڑا وزنی اعتراض معلوم ہوتا ہے۔ وحی کے دعوے کو رد کرنے کے لیے نبی کے مآخذ علم کی نشان دہی کردینے سے بڑھ کر اور کونسا اعتراض وزنی ہوسکتا ہے۔ مگر آدمی پہلی ہی نظر میں یہ دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے کہ جواب میں سے کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی، بلکہ صرف یہ کہہ کر بات ختم کردی گئی کہ تم صداقت پر ظلم کر رہے ہو، صریح بےانصافی کی بات کہہ رہے ہو، سخت جھوٹ کا طوفان اٹھا رہے ہو، یہ تو اس خدا کا کلام ہے جو آسمان و زمین کا بھید جانتا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ سخت مخالفت کے ماحول میں ایسا زوردار اعتراض پیش کیا جائے اور اس کو یوں حقارت سے رد کردیا جائے ؟ کیا واقعی یہ ایسا ہی پوچ اور بےوزن اعتراض تھا، کہ اس کے جواب میں بس " جھوٹ اور ظلم " کہہ دینا کافی تھا ؟ آخر وجہ کیا ہے کہ اس مختصر سے جواب کے بعد نہ عوام نے کسی تفصیلی اور واضح جواب کا مطالبہ کیا، نہ نئے نئے ایمان لانے والوں کے دلوں میں کوئی شک پیدا ہوا، اور نہ مخالفین ہی میں سے کسی کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ دیکھو، ہمارے اس وزنی اعتراض کا جواب بن نہیں پڑ رہا ہے اور محض جھوٹ اور ظلم کہہ کر بات ٹالی جا رہی ہے ؟۔ اس گتھی کا حل ہمیں اسی ماحول سے مل جاتا ہے جس میں مخالفین اسلام نے یہ اعتراض کیا تھا پہلی بات یہ تھی کہ مکہ کے وہ ظالم سردار جو ایک ایک مسلمان کو مارتے کوٹتے اور تنگ کرتے پھر رہے تھے، ان کے لیے یہ بات کچھ بھی مشکل نہ تھی کہ جن جن لوگوں کے متعلق وہ کہتے تھے کہ یہ پرانی پرانی کتابوں کے ترجمے کر کر کے محمد ﷺ کو یاد کرایا کرتے ہیں، ان کے گھروں پر اور خود نبی ﷺ کے گھر پر چھاپے مارتے اور وہ سارا ذخیرہ برآمد کر کے پبلک کے سامنے لا رکھتے جو ان کے زعم میں اس کام کے لیے فراہم کیا گیا تھا۔ وہ عین اس وقت چھاپا مار سکتے تھے جبکہ یہ کام کیا جا رہا ہو اور ایک مجمع کو دکھا سکتے تھے کہ لو دیکھو، یہ نبوت کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ بلال ؓ کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹنے والوں کے لیے ایسا کرنے میں کوئی آئین و ضابطہ مانع نہ تھا، اور ایسا کر کے وہ ہمیشہ کے لیے نبوت محمدی کے خطرے کو مٹا سکتے تھے۔ مگر وہ بس زبانی اعتراض ہی کرتے رہے اور ایک دن بھی یہ فیصلہ کن قدم اٹھا کر انہوں نے نہ دکھایا۔ دوسری بات یہ تھی کہ اس سلسلے میں وہ جن لوگوں کے نام لیتے تھے وہ کہیں باہر کے نہ تھے، اسی شہر مکہ کے رہنے والے تھے۔ ان کی قابلیتیں کسی سے چھپی ہوئی نہ تھیں۔ ہر شخص جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا تھا، یہ دیکھ سکتا تھا کہ محمد ﷺ جو چیز پیش کر رہے ہیں وہ کس پائے کی ہے، کس شان کی زبان ہے، کس مرتبے کا ادب ہے، کیا زور کلام ہے، کیسے بلند خیالات اور مضامین ہیں، اور وہ کس درجے کے لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ محمد ﷺ ان سے یہ سب کچھ حاصل کر کر کے لا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے کسی نے بھی اس اعتراض کو کوئی وزن نہ دیا۔ ہر شخص سمجھتا تھا کہ ان باتوں سے بس دل کے جلے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں اور نہ اس قول میں کسی شبہ کے قابل بھی جان نہیں ہے۔ جو لوگ ان اشخاص سے واقف نہ تھے وہ بھی آخر اتنی ذرا سی بات تو سوچ سکتے کہ اگر یہ لوگ ایسی ہی قابلیت رکھتے تھے تو آخر انہوں نے خود اپنا چراغ کیوں نہ جلایا ؟ ایک دوسرے شخص کے چراغ کو تیل مہیا کرنے کی انہیں ضرورت کیا پڑی تھی ؟ اور وہ بھی چپکے چپکے کہ اس کام کی شہرت کا ذرا سا حصہ بھی ان کو نہ ملے ؟ تیسری بات یہ تھی کہ وہ سب اشخاص، جن کا اس سلسلے میں نام لیا جا رہا تھا، بیرونی ممالک سے آئے ہوئے غلام تھے جن کو ان کے مالکوں نے آزاد کردیا تھا۔ عرب کی قبائلی زندگی میں کوئی شخص بھی کسی طاقتور قبیلے کی حمایت کے بغیر نہ جی سکتا تھا۔ آزاد ہوجانے پر بھی غلام اپنے سابق مالکوں کے سلاء (سرپرستی) میں رہتے تھے اور ان کی حمایت ہی معاشرے میں ان کے لیے زندگی کا سہارا ہوتی تھی۔ اب یہ ظاہر بات تھی کہ اگر محمد ﷺ ان لوگوں کی بدولت، معاذ اللہ، ایک جھوٹی نبوت کی دکان چلا رہے تھے تو یہ لوگ کسی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ تو اس سازش میں آپ کے شریک نہ ہو سکتے تھے۔ آخر ایسے شخص کے وہ مخلص رفیق کار اور سچے عقیدت مند کیسے ہو سکتے تھے جو رات کو انہی سے کچھ باتیں سیکھتا ہو اور دن کو دنیا ہی کے سامنے یہ کہہ کر پیش کرتا ہو کہ یہ خدا کی طرف سے مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے۔ اس لیے ان کی شرکت کسی لالچ اور کسی غرض ہی کی بنا پر ہو سکتی تھی۔ مگر کون صاحب عقل و ہوش آدمی یہ باور کرسکتا تھا کہ یہ لوگ خود اپنے سر پرستوں کو ناراض کر کے محمد ﷺ کے قوم کی دشمنی کے ہدف آدمی کے ساتھ مل جاتے اور اپنے سرپرستوں سے کٹ جانے کے نقصان کو ایسے مصیبت زدہ آدمی سے حاصل ہونے والے کسی فائدے کی امید پر گوارا کرلیتے ؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات تھی کہ انکے سرپرستوں کو یہ موقع تو آخر حاصل ہی تھا کہ مار کوٹ کر ان سے سازش کا اقبال کرا لیں۔ اس موقع سے انہوں نے کیوں نہ فائدہ اٹھایا اور کیوں نہ ساری قوم کے سامنے خود انہی سے یہ اعتراف کروا لیا کہ ہم سے سیکھ سیکھ کر یہ نبوت کی دکان چمکائی جا رہی ہے ؟ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ وہ سب محمد ﷺ پر ایمان لائے اور اس ضرب المثل عقیدت میں شامل ہوئے جو صحابہ کرام آنحضور ﷺ کی ذات مقدس سے رکھتے تھے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بناؤٹی اور سازشی نبوت پر خود ہی لوگ ایمان لائیں اور گہری عقیدت کے ساتھ ایمان لائیں جنہوں نے اس کے نانے کی سازش میں خود حصہ لیا ہو ؟ اور بالفرض اگر یہ ممکن بھی تھا تو ان لوگوں کو اہل ایمان کی جماعت میں کوئی نمایاں مرتبہ تو ملا ہوتا۔ یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ نبوت کا کاروبار تو چلے عَدّاس اور یسار اور جبر کے بل بوتے پر، اور نبی کے دست بنیں ابوبکر اور عمر اور ابو عبیدہ۔ اسی طرح یہ بات بھی بڑی تعجب انگیز تھی کہ اگر چند آدمیوں کی مدد سے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر نبوت کے اس کاروبار کا مواد تیار کیا جاتا تھا تو وہ زید بن حارثہ، علی بن ابی طالب، ابوبکر صدیق اور دوسرے ان لوگوں سے کس طرح چھپ سکتا تھا جو شب و روز محمد ﷺ کے ساتھ لگے رہتے تھے ؟ اس الزام میں برائے نام بھی شائبہ صداقت ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ یہ لوگ اس قدر خلوص کے ساتھ حضور پر ایمان لاتے اور آپ کی حمایت میں ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کرتے ؟ یہ وجوہ تھے جن کی بنا پر ہر سننے والے کی نگاہ میں یہ اعتراض آپ ہی بےوزن تھا۔ اس لیے قرآن میں اس کو کسی وزنی اعتراض کی حیثیت سے، جواب دینے کی خاطر نقل نہیں کیا گیا ہے، بلکہ یہ بتانے کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ دیکھو، حق کی دشمنی میں یہ لوگ کیسے اندھے ہوگئے ہیں، اور کس قدر صریح جھوٹ اور بےانصافی پر اتر آئے ہیں۔ سورة الْفُرْقَان 13 اس جگہ یہ فقرہ بڑا معنی خیز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا شان ہے خدا کی رحیمی و غفاری کی، جو لوگ حق کو نیچا دکھانے کے لیے ایسے ایسے جھوٹ کے طوفان اٹھاتے ہیں ان کو بھی وہ مہلت دیتا ہے اور سنتے ہی عذاب کا کوڑا نہیں برسا دیتا۔ اس تنبیہ کے ساتھ اس میں ایک پہلو تلقین کا بھی ہے کہ ظالمو، اب بھی اگر اپنے عناد سے باز آجاؤ اور حق بات کو سیدھے طرح مان لو تو جو کچھ آج تک کرتے رہے ہو وہ سب معاف ہوسکتا ہے۔
Top