Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 70
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
اِلَّا : سوائے مَنْ تَابَ : جس نے توبہ کی وَاٰمَنَ : اور وہ ایمان لایا وَعَمِلَ : اور عمل کیے اس نے عَمَلًا صَالِحًا : نیک عمل فَاُولٰٓئِكَ : پس یہ لوگ يُبَدِّلُ اللّٰهُ : اللہ بدل دے گا سَيِّاٰتِهِمْ : ان کی برائیاں حَسَنٰتٍ : بھلائیوں سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
اِلّا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد)توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگا 86 ہو۔ ایسے لوگوں کی بُرائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے 87 گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے
سورة الْفُرْقَان 86 یہ بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جن کی زندگی پہلے طرح طرح کے جرائم سے آلودہ رہی ہو اور اب وہ اپنے اصلاح پر آمادہ ہوں۔ یہی عام معافی (General Amnesty) کا اعلان تھا جس نے اس بگڑے ہوئے معاشرے کے لاکھوں افراد کو سہارا دے کر مستقل بگاڑ سے بچا لیا۔ اسی نے ان کو امید کی روشنی دکھائی اور اصلاح حال پر آمادہ کیا۔ ورنہ اگر ان سے یہ کہا جاتا کہ جو گناہ تم کرچکے ہو ان کی سزا سے اب تم کسی طرح نہیں بچ سکتے، تو یہ انہیں مایوس کر کے ہمیشہ کے لیے بدی کے بھنور میں پھسا دیتا اور کبھی ان کی اصلاح نہ ہو سکتی۔ مجرم انسان کو صرف معافی امید ہی جرم کے چکر سے نکال سکتی ہے۔ مایوس ہو کر وہ ابلیس بن جاتا ہے۔ توبہ کی اس نعمت نے عرب کے بگڑے ہوئے لوگوں کو کس طرح سنبھالا، اس کا اندازہ ان بہت سے واقعات سے ہوتا ہے جو نبی ﷺ کے زمانے میں پیش آئے۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ ہو جسے ابن جریر اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک روز میں مسجد نبوی سے عشا کی نماز پڑھ کر پلٹا تو دیکھا کہ ایک عورت میرے دروازے پر کھڑی ہے۔ میں اس کو سلام کر کے اپنے حجرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کر کے نوافل پڑھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور پوچھا کیا چاہتی ہے ؟ وہ کہنے لگی میں آپ سے ایک سوال کرنے آئی ہوں۔ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوا۔ ناجائز حمل ہوا۔ بچہ پیدا ہوا تو میں نے اسے مار ڈالا۔ اب میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ میرا گناہ معاف ہونے کی بھی کوئی صورت ہے ؟ میں نے کہا ہرگز نہیں۔ وہ بڑی حسرت کے ساتھ آہیں بھرتی ہوئی واپس چلی گئی، اور کہنے لگی " افسوس، یہ حسن آگ کے لیے پیدا ہوا تھا "۔ صبح نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ کر جب میں فارغ ہوا تو میں نے حضور ﷺ کو رات کا قصہ سنایا۔ آپ نے فرمایا، بڑا غلط جواب دیا ابوہریرہ تم نے، کیا یہ آیت قرآن میں تم نے نہیں پڑھی وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰھاً اٰخَرَ .......... اِلّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً ؟ حضور کا یہ جواب سن کر میں نکلا اور اس عورت کو تلاش کرنا شروع کیا۔ رات کو عشا ہی کے وقت وہ ملی۔ میں نے اسے بشارت دی اور بتایا کہ سرکار رسالت مآب ﷺ نے تیرے سوال کا یہ جواب دیا ہے۔ وہ سنتے ہی سجدے میں گر گئی اور کہنے لگی شکر ہے اس خدائے پاک کا جس نے میرے لیے معافی کا دروازہ کھولا۔ پھر اس نے گناہ سے توبہ کی اور اپنی لونڈی کو اس کے بیٹے سمیت آزاد کردیا۔ اس سے ملتا جلتا واقعہ احادیث میں ایک بڈھے کا آیا ہے جس نے آ کر حضور ﷺ سے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ، ساری زندگی گناہوں میں گزری ہے۔ کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا ارتکاب نہ کرچکا ہوں۔ اپنے گناہ تمام روئے زمین کے باشندوں پر بھی تقسیم کر دوں تو سب کو لے ڈوبیں۔ کیا اب بھی میری معافی کی کوئی صورت ہے ؟ فرمایا کیا تو نے اسلام قبول کرلیا ہے ؟ اس نے عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ فرمایا جا، اللہ معاف کرنے والا اور تیری برائیوں کو بھلائی سے بدل دینے والا ہے۔ اس نے عرض کیا میرے سارے جرم اور قصور ؟ فرمایا ہاں، تیرے سارے جرم اور قصور (ابن کثیر، بحوالہ ابن ابی حاتم)۔ سورة الْفُرْقَان 87 اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جب وہ توبہ کرلیں گے تو کفر کی زندگی میں جو برے افعال وہ پہلے کیا کرتے تھے ان کی جگہ اب طاعت اور ایمان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نیک افعال کرنے لگیں گے اور تمام برائیوں کی جگہ بھلائیاں لے لیں گی۔ دوسرے یہ کہ توبہ کے نتیجہ میں صرف اتنا ہی نہ ہوگا کہ ان کے ماہ اعمال سے وہ تمام قصور کاٹ دیے جائیں گے جو انہوں نے کفر و گناہ کی زندگی میں کیے تھے، بلکہ ان کی جگہ ہر ایک کے نامہ اعمال میں یہ نیکی لکھ دی جائے گی کیونکہ یہ وہ بندہ ہے جس نے بغاوت اور نافرمانی کو چھوڑ کر طاعت و فرمانبرداری اختیار کرلی۔ پھر جتنی بار بھی وہ اپنی سابقہ زندگی کے برے اعمال کو یاد کر کے نادم ہوگا اور اس نے اپنے خدا سے استغفار کیا ہوگا۔ اس کے حساب میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دی جائیں گی، کیونکہ خطا پر شرمسار ہونا اور معافی مانگنا بجائے خود ایک نیکی ہے۔ اس طرح اس کے نامہ اعمال میں تمام پچھلی برائیوں کی جگہ بھلائیاں لے لیں گی اور اس کا انجام صرف سزا سے بچ جانے تک ہی محدود نہ رہے گا بلکہ وہ الٹا انعامات سے سرفراز ہوگا۔
Top