Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 75
اُولٰٓئِكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّ سَلٰمًاۙ
اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ يُجْزَوْنَ : انعام دئیے جائیں گے الْغُرْفَةَ : بالاخانے بِمَا صَبَرُوْا : ان کے صبر کی بدولت وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا : اور پیشوائی کیے جائینگے اس میں تَحِيَّةً : دعائے خیر وَّسَلٰمًا : اور سلام
یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر 94 کا پھل منزلِ بلند کی شکل 95 میں پائیں گے۔ آداب و تسلیمات سے اُن کا استقبال ہو گا
سورة الْفُرْقَان 94 صبر کا لفظ یہاں اپنے وسیع ترین مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ دشمنان حق کے مظالم کو مردانگی کے ساتھ برداشت کرنا۔ دین حق کو قائم اور سربلندی کرنے کی جدو جہد میں ہر قسم کے مصائب اور تکلیفوں کو سہہ جانا۔ ہر خوف اور لالچ کے مقابلے میں راہ راست پر ثابت قدم رہنا۔ شیطان کی تمام ترغیبات اور نفس کی ساری خواہشات کے علی الرغم فرض کو بچا لانا، حرام سے پرہیز کرنا اور حدود اللہ پر قائم رہنا۔ گناہ کی ساری لذتوں اور منفعتوں کو ٹھکرا دینا اور نیکی و راستی کے ہر نقصان اور اس کی بدولت حاصل ہونے والی ہر محرومی کو انگیز کر جانا۔ غرض اس ایک لفظ کے اندر دین اور دینی رویے اور دینی اخلاق کی ایک دنیا کی دنیا سمو کر رکھ دی گئی ہے۔ سورة الْفُرْقَان 95 اصل میں لفظ غُرْفَہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی بلند وبالا عمارت کے ہیں۔ اس کا ترجمہ عام طور پر " بالا خانہ " کیا جاتا ہے جس سے آدمی کے ذہن میں ایک دو منزلہ کوٹھے کی سی تصویر آجاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسان جو بڑی سے بڑی اور اونچی سے اونچی عمارتیں بناتا ہے، حتّیٰ کہ ہندوستان کا روضہ تاج اور امریکہ کے ’‘ فلک شگاف " (Sky-scrapers) تک جنت کے ان محلات کی محض ایک بھونڈی سی نقل ہیں جن کا ایک دھندلا سا نقشہ اولاد آدم کے لا شعور میں محفوظ چلا آتا ہے۔
Top