Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 155
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۚ
قَالَ : اس نے فرمایا هٰذِهٖ : یہ نَاقَةٌ : اونٹنی لَّهَا : اس کے لیے شِرْبٌ : پانی پینے کی باری وَّلَكُمْ : اور تمہارے لیے شِرْبُ : بایک باری پانی پینے کی يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ : معین دن
صالح نے کہا”یہ اُونٹنی ہے۔ 103 ایک دن اس کے پینے کا ہے اور ایک دن تم سب کے پانی لینے کا۔ 104
سورة الشُّعَرَآء 103 معجزے کے مطالبے پر اونٹنی پیش کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض ایک عام اونٹنی نہ تھی جیسی ہر عرب کے پاس وہاں پائی جاتی تھی، بلکہ ضرور اس کی پیدائش اور اس کے ظہور میں یا اس کی خلقت میں کوئی ایسی چیز تھی جسے معجزے کی طلب پر پیش کرنا معقول ہوتا۔ اگر حضرت صالح اس مطالبے کے جواب میں یوں ہی کسی اونٹنی کو پکڑ کے کھڑا کردیتے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک نہایت فضول حرکت ہوتی جس کی کسی پیغمبر تو در کنار، ایک عام معقول آدمی سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات یہاں تو صرف سیاق کلام ہی کے اقتضاء سے سمجھ میں آتی ہے، لیکن دوسرے مقامات پر قرآن میں صراحت کے ساتھ اس اونٹنی کے وجود کو معجزہ کہا گیا ہے۔ سورة اعراف اور سورة ہود میں فرمایا گیا ھٰذِہ نَاقَۃُ اللہِ لَکُمْ ایٰۃً ، " یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی کے طور پر ہے "۔ اور سورة بنی اسرائیل میں اس سے بھی زیادہ پر زور الفاظ میں ارشاد ہوا ہے وَمَا مَنَعَنآ اَنْ نُّرْسِلَ بِا لْایٰتِ اِلَّا اَنْ کَذَّبَ بِھَا الْاَوَّلُوْنَ ، وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوْا بِھَا وَمَا نُرْسِلُ بالْایٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفاً ہ (آیت 59) ہم کو نشانیاں بھیجنے سے کسی چیز نے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ پہلے لوگ ان کو جھٹلا چکے ہیں اور ہم ثمود کے سامنے آنکھوں دیکھتے اونٹنی لے آئے پھر بھی انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا۔ نشانیاں تو ہم خوف دلانے ہی کے لیے بھیجتے ہیں (تماشا دکھانے کے لیے تو نہیں بھیجتے)۔ اس پر مزید وہ چیلنج ہے جو اونٹنی کو میدان میں لے آنے کے بعد اس کافر قوم کو دیا گیا۔ اس کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ صرف ایک معجزہ ہی پیش کر کے ایسا چیلنج دیا جاسکتا تھا۔ سورة الشُّعَرَآء 104 یعنی ایک دن تنہا یہ اونٹنی تمہارے کنوؤں اور چشموں سے پانی پیے گے اور ایک دن ساری قوم کے آدمی اور جانور پیئیں گے۔ خبردار، اس کی باری کے دن کوئی شخص پانی لینے کی جگہ پھٹکنے نہ پائے۔ یہ چیلنج بجائے خود نہایت سخت تھا۔ لیکن عرب کے مخصوص حالات میں تو کسی قوم کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا چیلنج ہو نہیں سکتا تھا۔ وہاں تو پانی ہی کے مسئلے پر خون خرابے ہوجاتے تھے، قبیلہ قبیلے سے لڑ جاتا تھا اور جان جوکھوں کی بازی لگا کر کسی کنوئیں یا چشمے سے پانی لینے کا حق حاصل کیا جاتا تھا۔ اس سر زمین میں کسی شخص کا اٹھ کر یہ کہہ دینا کہ ایک دن میری اکیلی اونٹنی پانی پیے گی اور باقی ساری قوم کے آدمی اور جانور صرف دوسرے دن ہی پانی لے سکیں گے، یہ معنی کہتا تھا کہ وہ دراصل پوری قوم کو لڑائی کا چیلنج دے رہا ہے۔ ایک زبر دست لشکر کے بغیر کوئی آدمی عرب میں یہ بات زبان سے نہ نکال سکتا تھا اور کوئی قوم یہ بات اس وقت تک نہ سن سکتی تھی جب تک وہ اپنی آنکھوں سے یہ نہ دیکھ رہی ہو کہ چیلنج دینے والے کی پشت پر اتنے شمشیر زن اور تیر انداز موجود ہیں جو مقابلے پر اٹھنے والوں کو کچل کر رکھ دیں گے۔ لیکن حضرت صالح نے بغیر کسی لاؤ لشکر کے تنہا اٹھ کر یہ چیلنج اپنی قوم کو دیا اور قوم نے نہ صرف یہ کہ اس کو کان لٹکا کر سنا بلکہ بہت دنوں تک ڈر کے مارے وہ اس کی تعمیل بھی کرتی رہی۔ سورة اعراف اور سورة ہود میں اس پر اتنا اضافہ اور ہے کہ ھٰذِہ نَاقَۃُ اللہِ لَکُمْ ایٰۃً فَذَرُوْھَا تَاْکُلُ فِیْ اَرْضِ اللہِ وَ لَا تَمَسُّوَھَا بِسُوْٓءٍ ، " یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی کے طور پر ہے، چھوڑ دو اسے کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے، ہرگز اسے برے ارادے سے نہ چھونا "۔ یعنی چیلنج صرف اتنا ہی نہ تھا کہ ہر دوسرے روز اکیلی یہ اونٹنی دن بھر سارے علاقے کے پانی کی اجارہ دار رہے گی، بلکہ اس پر مزید یہ چیلنج بھی تھا کہ یہ تمہارے کھیتوں اور باغوں اور نخلستانوں اور چراگاہوں میں دندناتی پھرے گی، جہاں چاہے گی جائے گی، جو کچھ چاہے گی کھائے گی، خبردار جو کسی نے اسے چھیڑا۔
Top