Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 197
اَوَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ اٰیَةً اَنْ یَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
اَوَ : کیا لَمْ يَكُنْ : نہیں ہے لَّهُمْ : ان کے لیے اٰيَةً : ایک نشانی اَنْ يَّعْلَمَهٗ : کہ جانتے ہیں اس کو عُلَمٰٓؤُا : علما بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
کیا اِن (اہلِ مکّہ)کےلیے یہ کوئی نشانی نہیں ہے کہ اِسے علماءِ بنی اسرائیل جانتے ہیں؟ 123
سورة الشُّعَرَآء 123 یعنی علمائے بنی اسرائیل اس بات سے واقف ہیں کہ جو تعلیم قرآن مجید میں دی گئی ہے وہ ٹھیک وہی تعلیم ہے جو سابق کتب آسمانی میں دی گئی تھی۔ اہل مکہ خود علم کتاب سے نا آشنا سہی، بنی اسرائیل کے اہل علم تو گرد و پیش کے علاقوں میں کثرت سے موجود ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا اور نرالا " ذکر " نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ محمد بن عبد اللہ نے لا کر تمہارے سامنے رکھ دیا ہو، بلکہ ہزارہا برس سے خدا کے نبی یہی ذکر پے در پے لاتے رہے ہیں۔ کیا یہ بات اس امر کا اطمینان کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ تنزیل بھی اسی رب العالمین کی طرف سے ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل کی تھیں ؟ سیرت ابن ہشام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے زمانہ نزول سے قریب ہی یہ واقعہ پیش آ چکا تھا کہ حبش سے حضرت جعفر ؓ کی دعوت سن کر 20 آدمیوں کا ایک وفد مکہ آیا اور اس نے مسجد حرام میں کفار قریش کے سامنے رسول اللہ ﷺ سے مل کر دریافت کیا کہ آپ کیا تعلیم لائے ہیں۔ حضور ﷺ نے جواب میں ان کو قرآن کی کچھ آیات سنائیں۔ اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ اسی وقت آپ کے رسول برحق ہونے کی تصدیق کر کے آپ پر ایمان لے آئے۔ پھر جب وہ حضور ﷺ کے پاس سے اٹھے تو ابو جہل قریش کے چند لوگوں کے ساتھ ان سے ملا اور انہیں سخت ملامت کی۔ اس نے کہا " تم سے زیادہ احمق قافلہ یہاں کبھی نہیں آیا۔ نامرادو، تمہارے ہاں کے لوگوں نے تو تمہیں اس لیے بھیجا تھا کہ اس شخص کے حالات کی تحقیق کر کے آؤ، مگر تم ابھی اس سے ملے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ بیٹھے "۔ وہ شریف لوگ ابو جہل کی اس زجر و توبیخ پر الجھنے کے بجائے سلام کر کے ہٹ گئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتے، آپ اپنے دین کے مختار ہیں اور ہم اپنے دین کے مختار ہمیں جس چیز میں اپنی خیر نظر آئی اسے ہم نے اختیار کرلیا (جلد دوم۔ صفحہ 32)۔ اسی واقعہ کا ذکر سورة قصص میں آیا ہے کہ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہ ھُمْ بِہ یُؤْمِنُوْنَ ہ وَاِذَا یُتْلیٰ عَلَیْہِمْ قَالُؤآ اٰمَنَّا بِہٖ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَا اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ۔ .......... وَاِذَ سَمِعُوا الْلَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ ، لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ۔ (آیات 52۔ 55)۔ " جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ انہیں سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے، ہم اس سے پہلے بھی اسی دین اسلام پر تھے ....... اور جب انہوں نے بیہودہ باتیں سنیں تو الجھنے سے پرہیز کیا اور بولے ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم کو سلام ہو، ہم جاہلوں کا طریقہ پسند نہیں کرتے (کہ چار باتیں تم ہمیں سناؤ تو ہم تمہیں سنائیں) "۔
Top