Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 216
فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَۚ
فَاِنْ : پھر اگر عَصَوْكَ : وہ تمہاری نافرمانی کریں فَقُلْ : تو کہ دیں اِنِّىْ بَرِيْٓءٌ : بیشک میں بیزار ہوں مِّمَّا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
لیکن اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذّمّہ ہوں۔ 136
سورة الشُّعَرَآء 136 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارے رشتہ داروں میں سے جو لوگ ایمان لا کر تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ نرمی اور ملاطفت اور تواضع کا رویہ اختیار کرو، اور جو تمہاری بات نہ مانیں ان سے اعلان برأت کردو۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ارشاد صرف ان رشتہ داروں سے متعلق نہ ہو جنہیں متنبہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، بلکہ سب کے لیے عام ہو۔ یعنی جو بھی ایمان لا کر تمہارا اتباع کرے اس کے ساتھ تواضع برتو اور جو بھی تمہاری نافرمانی کرے اس کو خبردار کردو کہ تیرے اعمال سے میں بری الذمّہ ہوں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قریش اور آس پاس کے اہل عرب میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو رسول اللہ ﷺ کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے، مگر انہوں نے عملاً آپ کی پیروی اختیار نہ کی تھی، بلکہ وہ بد ستور اپنی گمراہ سوسائٹی میں مل جل کر اسی طرح کی زندگی بس کر رہے تھے جیسی دوسرے کفار کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے ماننے والوں کو ان اہل ایمان سے الگ قرار دیا جنہوں نے حضور ﷺ کی صداقت تسلیم کرنے کے بعد آپ کا اتباع بھی اختیار کرلیا تھا۔ تواضع برتنے کا حکم صرف اسی مؤخر الذکر گروہ کے لیے تھا۔ باقی رہے وہ لوگ جو حضور ﷺ کی فرماں برداری سے منہ موڑے ہوئے تھے، جن میں آپ کی صداقت کو ماننے والے بھی شامل تھے اور آپ کا انکار کردینے والے بھی، ان کے متعلق حضور ﷺ کو ہدایت کی گئی کہ ان سے بےتعلقی کا اظہار کردو اور صاف صاف کہہ دو کہ اپنے اعمال کا نتیجہ تم خود بھگتو گے، تمہیں خبردار کردینے کے بعد اب مجھ پر تمہارے کسی فعل کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
Top