Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 35
یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهٖ١ۖۗ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ
يُّرِيْدُ : وہ چاہتا ہے اَنْ : کہ يُّخْرِجَكُمْ : تمہیں نکال دے مِّنْ : سے اَرْضِكُمْ : تمہاری سرزمین بِسِحْرِهٖ : اپنے جادو سے فَمَاذَا : تو کیا تَاْمُرُوْنَ : تم حکم (مشورہ) دیتے ہو
چاہتا ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔ 29 اب بتاوٴ تم کیا حکم دیتے ہو؟“ 30
سورة الشُّعَرَآء 29 دونوں معجزوں کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ یا تو ایک لمحہ پہلے وہ اپنی رعیت کے ایک فرد کو برسر دربار رسالت کی باتیں اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرتے دیکھ کر پاگل قرار دے رہا تھا (کیونکہ اس کے نزدیک ایک غلام قوم کے فرد کا اس جیسے با جبروت بادشاہ کے حضور ایسی جسارت کرنا پاگل پن کے سوا اور کچھ نہ ہوسکتا تھا) اور اسے دھمکی دے رہا تھا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو معبود مانا تو جیل میں سڑا سڑا کر مار دوں گا، یا اب ان نشانیوں کو دیکھتے ہی اس پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ اسے اپنی بادشاہی اور اپنا ملک چھننے کا خطرہ لاحق ہوگیا اور بد حواسی میں اسے یہ بھی احساس نہ رہا کہ میں بھرے دربار میں اپنے نوکروں کے سامنے کیسی بےتکی باتیں کر رہا ہوں۔ بنی اسرائیل جیسی دبی ہوئی قوم کے دو افراد وقت کے سب سے بڑے طاقتور بادشاہ کے سامنے کھڑے تھے۔ کوئی لاؤ لشکر ان کے ساتھ نہ تھا۔ کوئی جان ان کی قوم میں نہ تھی۔ کسی بغاوت کا نام و نشان تک ملک کے کسی گوشے میں نہ تھا۔ ملک سے باہر کسی دوسری حکومت کی طاقت بھی ان کی پشت پر نہ تھی۔ اس حالت میں صرف ایک لاٹھی کا اژدہا بنتے دیکھ کر اور ایک ہاتھ کو چمکتے دیکھ کر یکایک اس کا چیخ اٹھنا کہ یہ دو بےسرو سامان آدمی میری سلطنت کا تختہ الٹ دیں گے اور پورے حکمران طبقے کو اقتدار سے بےدخل کردیں گے، آخر کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس کا یہ کہنا کہ یہ شخص جادو کے زور سے ایسا کر ڈالے گا، مزید بد حواسی کی دلیل ہے۔ جادو کے زور سے دنیا میں کبھی کوئی سیاسی انقلاب نہیں ہوا، کوئی ملک فتح نہیں ہوا، کوئی جنگ نہیں جیتی گئی۔ جادوگر تو اس کے اپنی ملک میں موجود تھے اور بڑے بڑے کرشمے دکھا سکتے تھے۔ مگر وہ خود جانتا تھا کہ تماشا کر کے انعام لینے سے بڑھ کر ان کی کوئی اوقات نہیں ہے۔ سلطنت تو کجا، وہ بیچارے تو سلطنت کے کسی پولیس کا نسٹیبل کو بھی چیلنج کرنے کی ہمت نہ کرسکتے تھے۔ سورة الشُّعَرَآء 30 یہ فقرہ فرعون کی مزید بدحواسی کو ظاہر کرتا ہے۔ کہاں تو وہ الٰہ بنا ہوا تھا اور یہ سب اس کے بندے تھے۔ کہاں اب الٰہ صاحب مارے خوف کے بندوں سے پوچھ رہے ہیں کہ تمہارا حکم کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری عقل تو اب کچھ کام نہیں کرتی، تم بتاؤ کہ اس خطرے کا مقابلہ میں کیسے کروں۔
Top