Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 51
اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ اَنْ كُنَّاۤ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ۠   ۧ
اِنَّا نَطْمَعُ : بیشک ہم امید رکھتے ہیں اَنْ : کہ يَّغْفِرَ : بخش دے لَنَا : ہمیں رَبُّنَا : ہمارا رب خَطٰيٰنَآ : ہماری خطائیں اَنْ كُنَّآ : کہ ہم ہیں اَوَّلَ : پہلے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا ربّ ہمارے گناہ معاف کر دے گا کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں۔“ 40
سورة الشُّعَرَآء 40 یعنی ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا تو بہرحال ایک نہ ایک دن ضرور ہے۔ اب اگر تو قتل کر دے گا تو اس سے زیادہ کچھ نہ ہوگا کہ وہ دن جو کبھی آنا تھا، آج آجائے گا۔ اس صورت میں ڈرنے کا کیا سوال ؟ ہمیں تو الٹی مغفرت اور خطا بخشی کی امید ہے کیونکہ آج اس جگہ حقیقت کھلتے ہی ہم نے مان لینے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہ کی اور اس پورے مجمع میں سب سے پہلے پیش قدمی کر کے ہم ایمان لے آئے۔ جادوگروں کے اس جواب نے دو باتیں تمام اس خلقت کے سامنے واضح کردیں جسے فرعون نے ڈھنڈورے پیٹ پیٹ کر جمع کیا تھا۔ اول یہ کہ فرعون نہایت جھوٹا، ہٹ دھرم اور مکار ہے۔ جو مقابلہ اس نے خود فیصلے کے لیے کرایا تھا اس میں موسیٰ ؑ کی کھلی کھلی فتح کو سیدھی طرح مان لینے کے بجائے اور اس نے فوراً ایک جھوٹی سازش کا افسانہ گھڑ لیا اور قتل و تعصیب کی دھمکی دے کر زبر دستی اس کا اقرار کرانے کی کوشش کی۔ اس افسانے میں ذرہ برابر بھی کوئی صداقت ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ جادوگر ہاتھ پاؤں کٹوانے اور سولی پر چڑھ جانے کے لیے یوں تیار ہوجاتے۔ ایسی کسی سازش سے اگر کوئی سلطنت مل جانے کا لالچ تھا تو اب اس کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، کیونکہ سلطنت کے مزے تو جو لوٹے گا سو لوٹے گا، ان غریبوں کے حصے میں تو صرف کٹ کٹ کر جان دینا ہی رہ گیا ہے۔ اس ہولناک خطرے کو انگیز کر کے بھی ان جادوگروں کا اپنے ایمان پر قائم رہنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ سازش کا الزام سراسر جھوٹا ہے اور سچی بات یہی ہے کہ جادوگر اپنے فن میں ماہر ہونے کی وجہ سے ٹھیک ٹھیک جان گئے ہیں کہ جو کچھ موسیٰ ؑ نے دکھایا ہے وہ ہرگز جادو نہیں ہے بلکہ واقعی اللہ رب العالمین ہی کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ دوسری بات جو اس وقت ملک کے گوشے گوشے سے سمٹ کر آئے ہوئے ہزارہا آدمیوں کے سامنے کھل کر آگئی وہ یہ تھی کہ اللہ رب العالمین پر ایمان لاتے ہی ان جادوگروں میں کیسا زبردست اخلاقی انقلاب واقع ہوگیا۔ کہاں تو ان کی پستی ذہن و فکر کا یہ حال تھا کہ دین آبائی کی نصرت کے لیے آئے تھے اور فرعون کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر انعام مانگ رہے تھے، اور کہاں اب آن کی آن میں ان کی بلندی ہمت و عزم اس درجے کو پہنچ گئی کہ وہی فرعون ان کی نگاہ میں ہیچ ہوگیا، اس کی بادشاہی کی ساری طاقت کو انہوں نے ٹھوکر مار دی اور اپنے ایمان کی خاطر وہ موت اور بد ترین جسمانی تعذیب تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس سے بڑھ کر مصریوں کے دین شرک کی تذلیل اور موسیٰ ؑ کے لائے ہوئے دین حق کی مؤثر تبلیغ اس نازک نفسیاتی موقع پر شاید ہی کوئی اور ہو سکتی تھی۔
Top