Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 77
فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَۙ
فَاِنَّهُمْ : تو بیشک وہ عَدُوٌّ لِّيْٓ : میرے دشمن اِلَّا : مگر رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
میرے تو یہ سب دشمن ہیں 55 ، بجز ایک ربّ العالمین 56 کے
سورة الشُّعَرَآء 55 یعنی میں جب غور کرتا ہوں تو مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اگر میں ان کی پرستش کروں گا تو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی۔ میں ان کی عبادت کو محض بےنفع اور بےضرر ہی نہیں سمجھتا بلکہ الٹا نقصان وہ سمجھتا ہوں، اس لیے میرے نزدیک تو ان کو پوجنا دشمن کو پوجنا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت ابراہیم ؑ کے اس قول میں اس مضمون کی طرف بھی اشارہ ہے جو سورة مریم میں ارشاد ہوا کہ واتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اٰلِھَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَھُمْ عِزًّا ہ کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہَمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدًّا۔ (آیت 81۔ 82) انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا لیے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے ذریعہ قوت ہوں۔ ہرگز نہیں۔ عنقریب وہ وقت آئے گا جبکہ وہ ان کی عبادت کا انکار کردیں گے اور الٹے ان کے مخالف ہوں گے "۔ یعنی قیامت کے روز وہ ان کے خلاف گواہی دیں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ نہ ہم نے ان سے کبھی کہا کہ ہماری عبادت کرو، نہ ہمیں خبر کہ یہ ہماری عبادت کرتے تھے۔ یہاں حکمت تبلیغ کا بھی ایک نکتہ قابل توجہ ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تمہارے دشمن ہیں، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ وہ میرے دشمن ہیں۔ اگر وہ کہتے کہ یہ تمہارے دشمن ہیں تو مخاطب کے لیے ضد میں مبتلا ہوجانے کا زیادہ موقع تھا۔ وہ اس بحث میں پڑجاتا کہ بتاؤ، وہ ہمارے دشمن کیسے ہوگئے۔ بخلاف اس کے جب انہوں نے کہا کہ وہ میرے دشمن ہیں تو اس سے مخاطب کے لیے یہ سوچنے کا موقع پیدا ہوگیا کہ وہ بھی اسی طرح اپنے بھلے اور برے کی فکر کرے جس طرح ابراہیم ؑ نے کی ہے۔ اس طریقہ سے حضرت ابراہیم ؑ نے گویا ہر انسان کے اس فطری جذبے سے اپیل کی جس کی بنا پر وہ خود اپنا خیر خواہ ہوتا ہے اور جان بوجھ کر کبھی اپنا برا نہیں چاہتا۔ انہوں نے اسے بتایا کہ میں تو ان کی عبادت میں سراسر نقصان دیکھتا ہوں، اور دیدہ و دانستہ میں اپنی بد خواہی نہیں کرسکتا، لہٰذا دیکھ لو کہ میں خود ان کی بندگی و پرستش سے قطعی اجتناب کرتا ہوں۔ اس کے بعد مخاطب فطرۃً یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ اس کی اپنی بھلائی کس چیز میں ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ نادانستہ اپنی بد خواہی کر رہا ہو۔ سورة الشُّعَرَآء 56 یعنی تمام ان معبودوں میں سے، جن کی دنیا میں بندگی و پرستش کی جاتی ہے، صرف ایک اللہ رب العالمین ہے جس کی بندگی میں مجھے اپنی بھلائی نظر آتی ہے، اور جس کی عبادت میرے نزدیک ایک دشمن کی نہیں بلکہ اپنے اصل مربی کی عبادت ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ چند فقروں میں وہ وجوہ بیان کرتے ہیں جن کی بنا پر صرف اللہ رب العالمین ہی عبادت کا مستحق ہے، اور اس طرح اپنے مخاطبوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارے پاس تو معبودان غیر اللہ کی عبادت کے لیے کوئی معقول وجہ بجز تقلید آبائی کے نہیں ہے جسے تم بیان کرسکو، مگر میرے پاس صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کے لیے نہایت معقول وجوہ موجود ہیں جن سے تم بھی انکار نہیں کرسکتے۔
Top