Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 10
وَ اَلْقِ عَصَاكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْ١ؕ یٰمُوْسٰى لَا تَخَفْ١۫ اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَۗۖ
وَاَلْقِ : اور تو ڈال عَصَاكَ : اپنا عصا فَلَمَّا : پس جب اسے رَاٰهَا : اسے دیکھا تَهْتَزُّ : لہراتا ہوا كَاَنَّهَا : گویا کہ وہ جَآنٌّ : سانپ وَّلّٰى : وہ لوٹ گیا مُدْبِرًا : پیٹھ پھیر کر وَّلَمْ يُعَقِّبْ : اور مڑ کر نہ دیکھا يٰمُوْسٰي : اے موسیٰ لَا تَخَفْ : تو خوف نہ کھا اِنِّىْ : بیشک میں لَا يَخَافُ : خوف نہیں کھاتے لَدَيَّ : میرے پاس الْمُرْسَلُوْنَ : رسول (جمع)
اور پھینک تُو ذرا اپنی لاٹھی۔“ جُونہی کہ موسیٰ ؑ نے دیکھا لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے12 تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مُڑ کر بھی نہ دیکھا۔”اے موسیٰؑ ، ڈرو نہیں۔ میرے حضُور رسُول ڈرا نہیں کرتے13
سورة النمل 12 سورة اعراف اور سورة شعراء میں اس کے لیے ثعبان (اژدھے) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہاں اسے " جان " کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جو چھوٹے سانپ کے لے بولا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جسامت میں وہ اژدہا تھا، مگر اس کی حرکت کی تیزی ایک چھوٹے سانپ جیسی تھی، اسی مفہوم کو سورة طہ میں حیۃ تسعی (دوڑتے ہوئے سانپ) کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔ سورة النمل 13 یعنی میرے حضور اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ رسول کو کوئی گزند پہنچے رسالت کے منصب عظیم پر مقرر کرنے کے لیے جب میں کسی کو اپنی پیشی میں بلاتا ہوں تو اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوتا ہوں، اس لیے خواہ کیسا ہی کوئی غیر معمولی معاملہ پیش آئے رسول کو بےخوف اور مطمئن رہنا چاہیے کہ اس کے لیے وہ کسی طرح ضرر رساں نہ ہوگا۔
Top