Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 14
وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا١ؕ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
وَجَحَدُوْا : اور انہوں نے انکار کیا بِهَا : اس کا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ : حالانکہ اس کا یقین تھا اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل ظُلْمًا : ظلم سے وَّعُلُوًّا : اور تکبر سے فَانْظُرْ : تو دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے۔17 اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا
سورة النمل 17 قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کیا گیا ہے کہ جب موسیٰ علیہ اللام کے اعلان کے مطابق کوئی بلائے عام مصڑ پر نازل ہوتی تھی تو فرعون حضرت موسیٰ سے کہتا تھا کہ تم اپنے خدا سے دعا کر کے اس بلا کو ٹلوا دو ، پھر جو کچھ تم کہتے ہو وہ ہم مان لیں گے، مگر جب وہ بلا ٹل جاتی تھی تو فرعون اپنی اسی ہٹ دھرمی پر تل جاتا تھا (الاعراف، آیت 134، الزخرف، آیت 50، 49) بائیبل میں بھی اس کا ذکر موجود ہے (خروج، باب 8 تا 10) اور ویسے بھی یہ بات کسی طرح تصور میں نہ آسکتی تھی کہ ایک پورے ملک پر قحط اور طوفان اور ٹڈی دلوں کا ٹوٹ پڑنا اور مینڈکوں اور سرسریوں کے بیشمار لشکروں کا امڈ آنا کسی جادو کا کر شہ ہوسکتا ہے، یہ ایسے کھلے ہوئے معجزے تھے جن کو دیکھ کر ایک بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی یہ سمجھ سکتا تھا کہ پیغمبر کے کہنے پر ایسی ملک یر بلاؤں کا آنا اور پھر اس کے کہنے پر پر ان کا دور ہوجانا صرف اللہ رب العالمین ہی کے تصرف کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ اسی بنا پر حضرت موسیٰ نے فرعون سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ تو خوب جان چکا ہے کہ یہ نشانیاں مالک زمین و آسمان کے سوا کسی اور نے نازل نہیں کی ہیں۔ (بنی اسرائیل، آیت 1002) لیکن جس وجہ سے فرعون اور اس کی قوم کے س رداروں نے جان بوجھ کر ان کا انکار کیا وہ یہ تھی کہ اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کی بات مان لیں حالانکہ ان کی قوم ہماری غلام ہے ؟ (المومنون، آیت 47)
Top