Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 15
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق دیا ہم نے دَاوٗدَ : داود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان عِلْمًا : (بڑا) علم وَقَالَا : اور انہوں نے کہا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے فَضَّلَنَا : فضیلت دی ہمیں عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے عِبَادِهِ : اپنے بندے الْمُؤْمِنِيْنَ : مون (جمع)
(دُوسری طرف)ہم نے داوٴدؑ و سلیمانؑ کو علم عطا کیا 18اور اُنہوں نے کہا کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی۔19
سورة النمل 18 یعنی حقیقت کا علم۔ اس بات کا علم کہ درحقیقت ان کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے اللہ کا عطیہ ہے اور اس پر تصرف کرنے کے جو اختیارات بھی ان کو بخشے گئے ہیں انہیں اللہ ہی کی مرضی کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے، اور اس اختیار کے صحیح و غلط استعمال پر انہیں مالک حقیقی کے حضور جواب دہی کرنی ہے، یہ علم اس جہالت کی ضد ہے جس میں فرعون مبتلا تھا، اس جہالت نے جو سیرت تعمیر کی تھی اس کا نمونہ وپر مذکور ہوا، اب بتایا جاتا ہے کہ یہ علم کیسی سیرت کا نمونہ تیار کرتا ہے، بادشاہی، دولت، حشمت، طاقت، دونوں طرف یکساں ہے، فرعون کو بھی یہ ملی تھی اور داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کو بھی۔ لیکن جہالت اور علم کے فرق نے ان کے درمیان کتنا عظیم الشان فرق پیدا کردیا۔ سورة النمل 19 یعنی دوسرے مومن بندے بھی ایسے موجود تھے جن کو خلافت عطا کی جاسکتی تھی، لیکن یہ ہماری کوئی ذاتی خوبی نہیں بلکہ محض اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس مملکت کی فرمانروائی کے لیے منتخب فرمایا۔
Top