Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 19
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ
فَتَبَسَّمَ : تو وہ مسکرایا ضَاحِكًا : ہنستے ہوئے مِّنْ : سے قَوْلِهَا : اس کی بات وَقَالَ : اور کہا رَبِّ : اے میرے رب اَوْزِعْنِيْٓ : مجھے توفیق دے اَنْ اَشْكُرَ : کہ میں شکر ادا کروں نِعْمَتَكَ : تیری نعمت الَّتِيْٓ : وہ جو اَنْعَمْتَ : تونے انعام فرمائی عَلَيَّ : مجھ پر وَعَلٰي : اور پر وَالِدَيَّ : میرے ماں باپ وَاَنْ : اور یہ کہ اَعْمَلَ صَالِحًا : میں نیک کام کروں تَرْضٰىهُ : تو وہ پسند کرے وَاَدْخِلْنِيْ : اور مجھے داخل فرمائے بِرَحْمَتِكَ : اپنی رحمت سے فِيْ : میں عِبَادِكَ : اپنے بندے الصّٰلِحِيْنَ : نیک (جمع)
سلیمانؑ اس کی بات پر مُسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور بولا۔۔۔۔”اے میرے ربّ، مجھے قابو میں رکھ25 کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔“26
سورة النمل 25 اصل الفاظ ہیں رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ۔ وزع کے اصل معنی عربی زبان میں روکنے کے ہیں، اس موقع پر حضرت سلیمان کا یہ کہنا کہ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ (مجھے روک کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں) ہمارے نزدیک دراصل یہ معنی دیتا ہے کہ اے میرے رب جو عظیم الشان قوتیں اور قابلیتیں تو نے مجھے دی ہیں وہ ایسی ہیں کہ اگر میں ذرا سی غفلت میں بھی مبتلا ہوجاؤں تو حد بندگی سے خارج ہو کر اپنی کبریائی کے خبط میں نہ معلوم کہاں سے کہاں نکل جاؤں، اس لیے اسے میرے پروردگار تو مجھے قابو میں رکھ تاکہ میں کافر نعمت بننے کے بجائے شکر نعمت پر قائم رہوں۔ سورة النمل 26 صالح بندوں میں داخل کرنے سے مراد غالبا یہ ہے کہ آخرت میں میرا انجام صالح بندوں کے ساتھ ہو اور میں ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں۔ اس لیے کہ آدمی جب عمل صالح کرے گا تو صالح تو وہ آپ سے آپ ہوگا ہی، البتہ آخعرت میں کسی کا جنت میں داخل ہونا محض اس کے عمل صالح کے بل بوتے پر نہیں ہوسکتا بلکہ یہ اللہ کی رحمت پر موقوف ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ لن یدخل احکم الجنۃ عملہ " تم میں سے کسی کو بھی محض اس کا عمل جنت میں نہیں پہنچاوے گا "۔ عرض کیا گیا کہ ولا انت یا رسول اللہ " کیا حضور کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے "؟ فرمایا ولا انا الا ان یتغمد فی اللہ تعالیٰ برحمتہ " ہاں میں بھی محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ چلا جاؤں گا جب تک اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے نہ ڈھانک لے "۔ حضرت سلیمان کی یہ دعا اس موقع پر بالکل بےمحل ہوجاتی ہے اگر النمل سے مراد انسانوں کا کوئی قبیلہ لے لیا جائے اور نملۃ کے معنی قبیلہ نمل کے ایک فرد کے لے لیے جائیں، ایک بادشاہ کے لشکر جرار سے ڈر کر کسی انسانی قبیلہ کے ایک فرد کا اپنے قبیلے کو خطرہ سے خبردار کرنا آخر کون سی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ وہ جلیل القدر بادشاہ اس پر خدا سے یہ دعا کرنے لگے۔ البتہ ایک شخص کو اتنی زبردست قوت ادراک حاصل ہونا کہ وہ دور سے ایک چیونٹی کی آواز بھی سن لے اور اس کا مطلب سمجھ جائے ضرور ایسی بات ہے جس سے آدمی کے غرور نفس میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو۔ اسی صورت میں حضرت سلیمان کی یہ دعا بر محل ہوسکتی ہے۔
Top