Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 49
قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَنُبَیِّتَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ
قَالُوْا : وہ کہنے لگے تَقَاسَمُوْا : تم باہم قسم کھاؤ بِاللّٰهِ : اللہ کی لَنُبَيِّتَنَّهٗ : البتہ ہم ضرور شبخون ماریں گے اس پر وَاَهْلَهٗج : اور اس کے گھر والے ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ : پھر ضرور ہم کہ دیں گے لِوَلِيِّهٖ : اس کے وارثوں سے مَا شَهِدْنَا : ہم موجود نہ تھے مَهْلِكَ : ہلاکت کے وقت اَهْلِهٖ : اس کے گھروالے وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَصٰدِقُوْنَ : البتہ سچے ہیں
انہوں نے آپس میں کہا”خدا کی قسم کھا کر عہد کر لو کہ ہم صالحؑ اور اس کے گھر والوں پر شبخون ماریں گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے63 کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہ تھے، ہم بالکل سچ کہتے ہیں۔“64
سورة النمل 63 یعنی حضرت صالح ؑ کے قبیلے کے سردار سے جس کو قدیم قبائلی رسم و رواج کے مطابق ان کے خون کے دعوے کا حق پہنچتا تھا، یہ وہی پوزیشن تھی جو نبی ﷺ کے زمانے میں آپ کے چچا ابوطالب کو حاصل تھی، کفار قریش بھی اسی اندیشے سے ہاتھ روکتے تھے کہ اگر وہ آنحضرت ﷺ کو قتل کردیں گے تو بنی ہاشم کے سردار ابو طالب اپنے قبیلے کی طرف سے خون کا دعوی لے کر اٹھیں گے۔ سورة النمل 64 یہ بعینہ اسی نوعیت کی سازش تھی جیسی مکہ کے قبائلی سردار نبی ﷺ کے خلاف سوچتے رہتے تھے اور بالاخر یہی سازش انہوں نے ہجرت کے موقع پر حضور کو قتل کرنے کے لیے کی، یعنی یہ کہ سب قبیلوں کے لوگ ملکر آپ پر حملہ کریں تاکہ بنی ہاشم کسی ایک قبیلے کو ملزم نہ ٹھہرا سکیں اور سب قبیلوں سے بیک وقت لڑنا ان کے لیے ممکن نہ ہو۔
Top