Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 76
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَقُصُّ عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَكْثَرَ الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ الْقُرْاٰنَ : قرآن يَقُصُّ : بیان کرتا ہے عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل پر اَكْثَرَ : اکثر الَّذِيْ : وہ جو هُمْ : وہ فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے ہیں
یہ واقعہ ہے کہ یہ قرآن بنی اسرائیل کو اکثراُن باتوں کی حقیقت بتاتا ہے جن میں وہ اختلاف رکھتے ہیں93
سورة النمل 93 اس فقرے کا تعلق مضمون سابق سے بھی ہے اور مضمون مابعد سے بھی، مضمون سابق سے اس کا تعلق یہ ہے کہ اسی عالم الغیب خدا کے علم کا ایک کرشمہ یہ ہے کہ ایک امی کی زبان سے اس قرآن میں ان واقعات کی حقیقت کھولی جارہی ہے جو بنی اسرائیل کی تاریخ میں گزرے ہیں، حالانکہ خود علمائے بنی اسرائیل کے درمیان ان کی اپنی تاریخ کے ان واقعات میں اختلاف ہے (اس کے نظائر اسی سورة نمل کے ابتدائی رکوعوں میں گزر چکے ہیں، جیسا کہ ہم نے اپنے حواشی میں واضح کیا ہے) اور مضمون مابعد سے اس کا تعلق یہ ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان اختلافات کا فیصلہ فرمایا ہے اسی طرح وہ اس اختلاف کا بھی فیصلہ کردے گا جو محمد ﷺ اور ان کے مخالفین کے درمیان برپا ہے۔ وہ کھول کر رکھ دے گا کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون۔ چناچہ ان آیات کے نزول پر چند ہی سال گزرے تھے کہ فیصلہ ساری دنیا کے سامنے آگیا۔ اسی عرب کی سرزمین میں، اور اسی قبیلہ قریش میں ایک متنفس بھی ایسا نہ رہا جو اس بات کا قائل نہ ہوگیا ہو کہ حق پر محمد ﷺ تھے نہ کہ ابوجہل اور ابو لہب۔ ان لوگوں کی اپنی اولاد تک مان گئی کہ ان کے باپ غلطی پر تھے۔
Top