Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 22
وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَمَّا : اور جب تَوَجَّهَ : اس نے رخ کیا تِلْقَآءَ : طرف مَدْيَنَ : مدین قَالَ : کہا عَسٰى : امید ہے رَبِّيْٓ : میرا رب اَنْ يَّهْدِيَنِيْ : کہ مجھے دکھائے سَوَآءَ السَّبِيْلِ : سیدھا راستہ
(مصر سے نکل کر)جب موسیٰؑ نے مَدیَن کا رُخ کیا31 تو اُس نے کہا”اُمید ہے کہ میرا ربّ مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا۔“32
سورة القصص 31 بائیبل کا بیان اس امر میں قرآن سے متفق ہے کہ حضرت موسیٰ نے مصر سے نکل کر مدین کا رخ کیا تھا۔ لیکن تلمود یہ بےسرو پا قصہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسیٰ سے بھاگ کر حبش چلے گئے اور وہاں بادشاہ کے مقرب ہوگئے۔ پھر اس کے مرنے پر لوگوں نے ان کو اپنا بادشاہ بنا لیا اور اس کی بیوہ سے ان کی شادی کردی۔ 40 سال انہوں نے وہاں حکومت کی، مگر اس پوری مدت میں اپنی حبشی بیوی سے کبھی مقاربت نہ کی۔ 40 سال گزر جانے کے بعد اس عورت نے حبش کے باشندوں سے شکایت کی کہ اس شخص نے آج تک نہ تو مجھ سے زن و شو کا تعلق رکھا ہے اور نہ کبھی حبش کے دیوتاؤں کی پرستش کی ہے، اس پر امرائے سلطنت نے انہیں معزول کر کے اور بہت سا مال دے کر ملک سے باحترام رخصت کردیا، تب وہ حبش سے مدین پہنچے اور وہ واقعات پیش آئے جو آگے بیان ہورہے ہیں، اس وقت ان کی 67 سال تھی۔ اس قصے کے بےسروپا ہونے کی ایک کھلی دلیل یہ ہے کہ اسی قصے میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس زمانے میں اسیریا (شمالی عراق) پر حبش کی حکومت تھی، اور اسیر یا والوں کی بغاوتیں کچلنے کے لیے حضرت موسیٰ نے بھی اور ان کے پیش رو بادشاہ نے بھی فوجی چڑھائیاں کی تھیں۔ اب جو شخص بھی تاریخ و جغرافیہ سے کوئی واقفیت رکھتا ہو وہ نقشے پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھ سکتا ہے کہ اسیریا پر حبشہ کا تسلط اور حبشی فوج کا حملہ یا تو اس صورت میں ہوسکتا تھا کہ مصر اور فلسطین و شام پر اس کا قبضہ ہوتا، یا پورا ملک عرب اس کے زیر نگیں ہوتا، یا پھر حبش کا بیڑا ایسا زبردست ہوتا کہ وہ بحر ہند اور خلیج فارس کو عبور کر کے عراق فرح کرلیتا۔ تاریخ اس ذکر سے خالی ہے کہ کبھی حبشیوں کو ان ممالک پر تسلط حاصل ہوا ہو یا ان کی بحری طاقت اتنی زبردست رہی ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا علم خود اپنی تاریخ کے بارے میں کتنا ناقص تھا اور قرآن ان کی غلطیوں کی تصحیح کر کے صحیح واقعات کیسی منقح صورت میں پیش کرتا ہے۔ لیکن عیسائی اور یہودی مستشرقین کو یہ کہتے ذرا شرم نہیں آتی کہ قرآن نے یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کرلیے ہیں۔ سورة القصص 32 یعنی ایسے راستہ پر جس سے میں بخیریت مدین پہنچ جاؤں۔ واضح رہے کہ اس زمانہ میں مدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا، مصر کی حکومت پورے جزیرہ نمائے سینا پر نہ تھی بلکہ صرف اس کے مغربی اور جنوبی علاقے تک محدود تھی۔ خلیج عقبہ کے مشرقی اور مغربی سواحل جن پر بنی مدیان آباد تھے، مصری اثر و اقتدار سے بالکل آزاد تھے۔ اسی بنا پر حضرت موسیٰ نے مصر سے نکلتے ہی مدین کا رخ کیا تھا کیونکہ قریب ترین آزاد اور آباد علاقہ وہی تھا، لیکن وہاں جانے کے لیے انہیں گزرنا بہرحال مصر کے مقبوضہ علاقوں ہی سے تھا، اور مصر کی پولیس اور فوجی چوکیوں سے بچ کر نکلنا تھا، اسی لیے انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایسے راستے پر ڈال دے جس سے میں صحیح و سلامت مدین پہنچ جاؤں۔
Top